اسلام آباد سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواست دائر کردی گئی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق سپریم کورٹ میں دائر کردہ نظر ثانی میں درخواست گزار شاہد رانا ایڈووکیٹ نے وفاق کو فریق بنایا ہے، درخواست گزار نے موقف اپنایا ہے کہ آرٹیکل 192 کے تحت پریکٹس اینڈ پروسیجر قائدے بنانے کا اختیار سپریم کورٹ کو ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت سپریم کورٹ رولز کا اختیار مقننہ کو دے دیا گیا ہے، 11 اکتوبر 2023 کے فیصلے پر نظرثانی نہ ہونے کی صورت میں مقننہ کو مداخلت کا مسلسل اختیار مل جائے گا۔
درخواست گزار نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ نے آرٹیکل 191 کے تحت سپریم کورٹ رولز 1980 مرتب کئے، پارلیمنٹ دستور میں ترمیم کے زریعے ہی اپیل کی دادرسی فراہم کرسکتی ہے، اس ایکٹ کے تحت سپریم کورٹ کورٹ اپنے معاملات میں مقننہ کی محتاج بن جائے گی، اس لیے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو ماورائے قانون قرار دے کر کالعدم کیا جائے۔
یاد رہے کہ عدالت عظمیٰ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو قانونی قرار دے دیا ہے تاہم سپریم کورٹ نے ایکٹ کی ماضی سے اطلاق کی شق 8، 7 سے مسترد کردی ہے، جس کا مطلب ہے اپیل کا اطلاق ماضی سے نہیں ہوگا، آرٹیکل 184/3 کے مقدمات میں اپیل کا حق 6، 9 کے تناسب سے برقرار رہے گا، چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم فل کورٹ کا فیصلہ دس پانچ کی اکثریت سے ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مختصر فیصلہ سنایا۔
فیصلے میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ کے فل کورٹ کا فیصلہ 10، 5 کی اکثریت سے ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجرایکٹ کی مخالفت میں دائر درخواستیں مسترد کردی گئیں، سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ کی قانون سازی کو درست قرار دے دیا، فیصلے بعد پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا نفاذ ہوگیا، سپریم کورٹ نے ایکٹ کی ماضی سے اطلاق کی شق 8، 7 سے مسترد کردی، 8 ججز نے اپیل کے حق کو پچھلی تاریخوں سے لاگو کرنے کی مخالفت کی، اپیل کا اطلاق ماضی سے نہیں ہوگا، اپیل کا حق ماضی سے دینے کی شق کالعدم قرار دینے کے فیصلے سے چیف جسٹس نے اختلاف کیا، آرٹیکل 184/3کے مقدمات میں اپیل کا حق 6-9 کے تناسب سے برقرار رہے گا۔