ان کی پارٹی کے خلاف جاری کریک ڈاؤن کے باعث پی ٹی آئی انتخابی مہم سے تقریباً آؤٹ نظر آتی ہے۔
61 سالہ جمال احسن خان کہتے ہیں، ’’ہماری پارٹی کے کارکنوں کو ہراساں کیا جا رہا ہے۔ مجھے جان سے مارنے کی دھمکیاں موصول ہوئی ہیں۔‘‘
جمال احسن خان عمران خان کی جگہ میانوالی میں پی ٹی آئی کے لیے الیکشن لڑ رہے ہیں۔
جمال مزید کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنی پوری زندگی میں الیکشن مہم کے دوران اتنا شدید دباؤ والا اور خوفزدہ کرنے والا ماحول نہیں دیکھا تھا۔
عمران خان اس وقت جیل میں ہیں۔ انہیں کئی کیسز کا سامنا کر رہے ہیں، انہیں بدعنوانی کے الزام میں آنے والے الیکشنز میں حصہ لینے سے روک دیا گیا ہے۔
ان کے مطابق ان پر یہ الزامات سیاسی وجوہات کی وجہ سے عائد کیے گئے ہیں۔
اس تمام تر صورتحال کے ساتھ ساتھ، ملک بھر میں، پی ٹی آئی کو الیکشن مہم کے لیے نکالی جانے والی ریلیوں کے انعقاد سے روکا گیا ہے اور میڈیا کو پی ٹی آئی کی کوریج سے بھی روک دیا گیا ہے۔ اس وقت پی ٹی آئی کی الیکشن مہم آن لائن پلیٹ فارمز تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔
پی ٹی آئی کے درجنوں امیدواروں کے کاغذات نامزدگی بھی الیکشن کمیشن کی جانب سے مسترد کر دیے گئے ہیں۔
پارٹی کے بہت سے امیدواروں کی طرح احسن خان بھی انتخابات کی مہم نہیں چلا سکتے۔ انہوں نے اے ایف پی کو بتایا، “یہ مایوس کن محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کی سرکردہ سیاسی جماعت کے امیدوار کے طور پر، میں اپنی انتخابی مہم چلانے سے قاصر ہوں۔”
الیکشنز میں دو ہفتے باقی رہ گئے ہیں۔ 240 ملین سے زیادہ آبادی والے ملک میں انتخابات کا کوئی جوش اور جوش دکھاءی نہیں دیتا
جہاں 2018 میں پی ٹی آئی کی الیکشنز میں فتح، بدعنوانی کے خاتمے کے وعدوں اور خاندانی سیاست کے خاتمے کے عزم نے خان کو وزیر اعظم بننے میں مدد کی۔
وہیں میانوالی کے عوام کے لیے عمران خان اب بھی ایک ہیرو کی حثیت رکھتے ہیں۔
تاہم ماہرین کے مطابق ان کی مستقل سیاسی مطابقت کی بنیادی اور سب سے اہم وجہ ان کا اسٹیبلشمنٹ مخالف موقف ہے۔
بڑے پیمانے پر خیال کیا جاتا تھا کہ خان کو اقتدار میں آنے میں فوج کی حمایت حاصل تھی، لیکن وہ اپنی قیادت کے دوران طاقتور جرنیلوں کے ہونے لگے۔
2022 میں پارلیمانی عدم اعتماد کے ووٹ میں درجنوں ممبران کے ان کے خلاف ووٹ دینے کے بعد انہیں معزول کر دیا گیا۔
مئی 2023 میں ان گرفتاری کے بعد ان کے حامی سڑکوں پر نکل آئے۔ جنہوں نے، سرکاری اور عوامی املاک کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچایا اور یہیں سے خان کی پارٹی کے خلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن شرع ہوا۔
اس ماہ پی ٹی آئی کو ایک اور بڑا دھچکا لگا جب سپریم کورٹ کی جانب سے پارٹی کا انتخابی نشان بلاان سے واپس لے لیا گیا۔
ایک ایسے ملک میں جہاں لاکھوں لوگ صرف انتخابی نشان کی مدد سے ہی اپنی پارٹی کوپہچانتے ہیں، ہی ٹی آئی کے لیے ایک بڑا امتحان ثابت ہوگا۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے پی ٹی ءی امیدواران کو مختلف انتخابی نشان الاٹ کیے گئے ہیں جیسے کہ میانوالی میں احسن خان کا انتخابی نشان اب بوتل ہوگا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق خان کا پلڑا اس وقت ہلکہ ہے ان کی جگہ ایک بار پھر سابق وزیر اعظم اور پاکستان مسلم لیگ ن کے سربراہ نواز شریف نے لے لی ہے۔ اس وقت وہ فوج کے زیر سایہ ہیں۔
لیکن انتخابی مہم سے آؤٹ ہونے کے باوجود ووٹرز میں اب بھی خان کے لیے پسندیدگی موجود ہے۔
23 سالہ طالبہ حنظلہ بن شکیل پہلی بار ووٹ ڈالیں گی وہ کہتی ہیں کہ وہ عمران خان کے لیے ہی ووٹ کریں گی کیونکہ صرف عمران خان ہی اپنے ذاتی مفادات پر ملک کو ترجیح دیتے ہیں۔