امریکی فوج نے عراق اور شام میں ایران سے وابستہ اہداف کو نشانہ بنایا ہے دونوں ملکوں میں 85 سے زیادہ فضائی حملے کیے گئے ہیں،واشنگٹن کا کہنا ہے کہ فوجی کاروائیاں اردن میں حملے کے تین امریکیوں کے مارے جانے کے جواب میں کی جارہی ہیں. امریکی فوجی ترجمان نے بتایا کہ کاروائیوں میں غیرمعمولی بلندی تک پرواز کرنے والے بی ون بمبار طیارے بھی شامل ہیں اسی طرح جدید مسلح ڈرون اور جدید ترین لڑاکا جہازایف35بھی آپریشن میں حصہ لے رہے ہیں.
بائیڈن کی انتظامیہ کی طرف سے ایران کے حمایت یافتہ عسکریت پسندوں کے حملے پر اتنے بڑے پیمانے پر یہ پہلا حملہ ہے جبکہ امریکا کی جانب سے مزید فوجی کارروائیاں متوقع ہیں‘اگرچہ ان حملوں میں ایران کو براہ راست نشانہ نہیں بنایا گیا تاہم امریکا کا الزام لگاتا آیا ہے کہ عراق‘شام‘یمن‘لبنان سمیت کئی ملکوں میں امریکی مفادات کے خلاف لڑنے والے مسلح گروپوں کو ایران تربیت دیتا ہے اور انہیں تمام ترلاجسٹک سپورٹ بھی تہران کی جانب سے فراہم کی جاتی ہے.
ماہرین کا کہنا ہے کہ روس کی حمایت اور خطے میں بعض اتحادی ممالک کے دباﺅ کی وجہ سے امریکا براہ راست ایران پر حملے نہیں کررہاخطے میں امریکا کے اتحادی خصوصا عربوں کا خیال ہے کہ ایران پر براہ راست حملوں کی صورت میں تہران عرب ملکوں میں قائم امریکی فوجی اڈوں کو نشانہ بنائے گا جس میں ان ممالک کی داخلی سیکورٹی براہ راست خطرات کا شکار ہوجائے گی تاہم واشنگٹن غزہ میں فلسطین میںحماس اور اسرائیل کے درمیان جاری مسلح تنازعے سے مشرق وسطیٰ میں جنگ کے سائے گہرے ہوتے نظرآرہے ہیں ‘ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے ساری اسلامی دنیا میں بڑی تعداد میں موجود ہیں اور اپنے مسلکی عقائد کی وجہ سے ایران ان کا مرکزومحور ہے اس لیے امریکا کے اتحادی مسلمان ممالک اس بات سے خائف ہیں کہ ایران پر براہ راست حملوں کی صورت میں ان کے لیے اپنے اہل تشیع شہریوں پرقابو پانا مشکل ہوجائے گا .
ادھرامریکی سینٹرل کمانڈ فورسز (سینٹ کام) نے بتایا ہے کہ امریکی افواج نے عراق اور شام کے اندر پاسداران انقلاب کی القدس فورس اور اس کے اتحادی ملیشیا گروپوں کے خلاف فضائی حملے کیے ہیں سینٹ کام کا کہنا ہے کہ جن جگہوں کو نشانہ بنایا گیا ان میں ملیشیا گروپوں اور ان کے حامی پاسدان انقلاب کے کمانڈ اینڈ کنٹرول سنٹرز، انٹیلیجنس سنٹرز، راکٹس، میزائل، بنا پائلٹ کے اڑنے والے فضائی آلات کے سٹوریجز اور ملیشیا گروپوں کے لیے اسلحے کی فراہمی میں استعمال ہونے والی تنصیبات شامل ہیں.
واح رہے کہ گزشتہ ہفتے اردن میں قائم امریکی فوجی اڈاے”ٹاور بائیس“ پر ڈرون حملے میں تین امریکی فوجی ہلاک اور 40 کے لگ بھگ زخمی ہو گئے تھے جس پر امریکی حکام کا الزام عائدکیا تھا کہ یہ حملہ ایران کے حمایت یافتہ ایک مسلح گروپ نے کیا ہے. صدر جو بائیڈن نے ایک بیان میں واضح کیا ہے کہ آنے والے دنوں میں مزید عمل میں آئے گا انہوں نے کہا کہ ہمارا جواب ابھی شروع ہواہے جو ہمارے منتخب کردہ اوقات اور مقامات پر جاری رہے گا‘بائیڈن نے انتباہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ تمام لوگ جو ہمیں نقصان پہنچانا چاہتے ہیں، یہ جان لیں کہ اگر آپ کسی امریکی کو نقصان پہنچاتے ہیں، تو ہم جواب دیں گے.
صدر جو بائیڈن نے ایک بیان میں واضح کیا کہ آنے والے دنوں میں ردعمل میں شدت آئے گی صدر بائیڈن اور دیگر اعلیٰ امریکی رہنما کئی دنوں سے کہہ رہے تھے کہ کوئی بھی امریکی ردعمل صرف ایک حملہ نہیں بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ ایک ”سلسلے وار جواب“ہوگا. قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے کہا کہ اہداف کو احتیاط سے منتخب کیا گیا تاکہ شہری ہلاکتوں سے بچا جا سکے اور واضح، ناقابل تردید شواہد کی بنیاد پر ان کا تعلق خطے میں امریکی اہلکاروں پر حملوں سے تھا انہوں نے یہ بتانے سے انکار کر دیا کہ وہ شواہد کیا تھے .
امریکی نشریاتی ادارے کا کہنا ہے کہ شام اور عراق میں عسکری گروپوں پر ہونے والے ان حملوں کے بارے میں عہدے داروں نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا تھا کیونکہ انہیں اس پر بات کرنے کی اجازت نہیں‘عہدے داروں کا کہنا تھا کہ ان حملوں میں پائلٹ بردار اور بغیر پائلٹ کے پرواز کرنے والے طیاروں نے حصہ لیا اور اس ابتدائی کارروائی میں عسکری گروپوں کے کمانڈ اینڈ کنٹرول ہیڈکوارٹرز، گولہ بارود کے ذخائر اور دیگر تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا ہے.
یہ حملے امریکی ریاست ڈیلاویئر میں ایئرفورس بیس ڈوور پر اردن کے ڈرون حملے میں ہلاک ہونے والے تین امریکی فوجیوں کی میتیں وطن واپس پہنچنے کے چند گھنٹوں کے بعد کیے گئے فوجیوں کی باقیات کی آمد کے موقع پر صدر بائیڈن، اعلیٰ عہدے دار اور غمزدہ خاندان بھی فوجی ایئرپورٹ پر موجود تھے یہ واضح نہیں ہے کہ ان حملوں کے بعد کیا اقدامات کیے جائیں گے لیکن یہ واضح ہے کہ ایران کی حمایت یافتہ ملیشیاﺅں میں سے ایک کتائب حزب اللہ کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان کے باوجود کہ وہ امریکی فوجیوں پر حملے معطل کر رہے ہیں امریکی منصوبوں پر کوئی اثر نہیں پڑا.
شام کی وزارت دفاع نے کہا کہ امریکی افواج کی فضائی فضائی جارحیت کے نتیجے میں متعدد شہری اور فوجی ہلاک اور دیگر زخمی ہوئے اور سرکاری اور نجی املاک کو بھی نقصان پہنچا ہے‘دمشق کا کہنا ہے کہ امریکی افواج کی طرف سے شامی سرزمین کے کچھ حصوں پر قبضہ جاری نہیں رکھا جا سکتا شامی فوج دہشت گردی کے خلاف اپنی جنگ جاری رکھنے کا اعادہ کرتی ہے جب تک کہ اس کا خاتمہ نہیں ہو جاتا اور وہ پورے شامی علاقوں کو دہشت گردی اور قبضے سے آزاد کرانے کے لیے پرعزم ہے.
عراقی فوج کے ترجمان یحییٰ رسول نے کہا کہ یہ فضائی حملے عراق کی خودمختاری کی خلاف ورزی، عراقی حکومت کی کوششوں کو نقصان پہنچاتے ہیں، اور ایک خطرہ لاحق ہیں جو عراق اور خطے کو سنگین نتائج سے دوچار کر سکتے ہیں‘ایران کی جانب سے تاحال کوئی عوامی ردعمل سامنے نہیں آیا ایران کے سرکاری ٹیلی ویژن نے حملوں سے متعلق اپنی رپورٹ میں امریکا کو دہشت گرد قوت قرار دیا ہے.
امریکی محکمہ دفاع پینٹاگان کا کہنا ہے کہ ہم ایران کے ساتھ جنگ نہیں چاہتے اور نہ ہی تہران جنگ چاہتا ہے، جبکہ اردن میں امریکی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد ریپبلکن پارٹی کی جانب سے ایران پر براہ راست حملے کے لیے دباﺅ میں اضافہ ہوا ہے مبصرین کا کہنا ہے کہ اس کا امکان موجود ہے کہ بائیڈن انتظامیہ کواس سلسلہ میں کانگریس کے اندر شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے خصوصا سینیٹ میں جہاں ریپبلکن پارٹی کو اکثریت حاصل ہے نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات کی مہم کے دوران بھی برسراقتدارڈیموکریٹس پارٹی کو تنقید کا سامنا ہے کیونکہ بائیڈن انتظامیہ کے چار سالہ دورمیں وہ کسی خاص کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرسکی جس کی وجہ سے انہیں پارٹی کے اندر سے بھی مخالفت کا سامنا ہے .
بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے ریپبلکن صدارتی امیدوار ڈونلڈ جے ٹرمپ کوانتخابی عمل سے باہر کرنے کے لیے کیئے جانے والے تمام حربے ناکام ہوچکے ہیں اور ٹرمپ بھرپور طریقے سے اپنی انتخابی مہم شروع کرچکے ہیں جس کی وہ پچھلے چار سالوں سے منصوبہ بندی کررہے تھے چھ جنوری2021میں امریکی پارلیمان پر حملے کے بعد سے سابق صدر ٹرمپ غیراعلانیہ بلیک آﺅٹ کا سامنا کررہے تھے یہاں تک کہ ان کے سوشل میڈیا اکاﺅنٹس تک کو بلاک کردیاگیا اس دوران انہیں متعددمقدمات کا بھی سامنا کرنا جن میں کئی ابھی تک زیرسماعت ہیں .