تقریباً 70 فیصد بھٹہ مزدور شناختی کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے ووٹ کے حق سے محروم نوراں کی زندگی میں خوشیوں کے رنگ کب بھریں گے، کب بھٹہ مزدور اپنی تقدیر کے ووٹ کے زریعے خود کاتب بنیں گے؟

نوراں اری او نوراں ۔۔۔ کوئی جلدی کرو ولدی ڈھ گئی ہے۔ چاچی نے اینٹیں بناتی 14 سے 15 سال کی لڑکی کو بےحوش ہوکر گرتے دیکھا اور دائیں بائیں آوازیں دینے لگی۔ پانی منہ پر ڈال کر نمک چٹایا گیا۔ ہاں جی دل جو گھبرا گیا تھا، ابھی 5 ماہ ہوئے شادی کو اور خوشخبری ملے بھی دوماہ ہوگئے۔ ایل ایچ وی نے تو کہا تھا کام نہ کرے آرام کراؤ۔۔ لیکن اینٹوں کی بنائی والے پتھیرے سجو کا خاندان بچے سے لے کر بزرگ عورتں نوبیاہتا دلہنیں، سب ہی کوکام کرناہوتا ہے کوئی اینٹیں بنارہا ہے تو کوئی مٹی گوندھ رہا ہے، پانی کے ٹوبے پر سب کو پانی لاکر دینے مٹی لانے اور بار برداری کے لئے موجود گدھا بھی تو ساتھ ہی جتا ہوتا ہے، لیکن گدھے کو کون سی زبان لگی ہے جو کوئی اس کی مرضی پوچھے۔ عالمی سطح پر قائم جانوروں کے حقوق کے لئے قائم ادارے تو شائد اس گدھے کو حقوق دلانے کے لئے سڑکوں پر آجائیں کہ گدھا کیا سچوتاہے کا چاہتا ہے؟ اس کے کیا حقوق ہیں؟ کہاں رہنا چاہتا ہے؟ کیا کھانا چاہتا ہے؟ اسے سردی گرمی میں کیا ضروتیں ہیں؟ اسے کیا پسند ہے کون سی بات اسے ناپسند ہے؟ شائد کہ عالمی سطح پر جانوروں کے حقوق کے لئے کام کرنے والے اداروں کو معلوم ہو اور اسلام آباد کے چڑیا گھر سے کاون ہاتھی کی طرح اسے بھی اس کی من چاہی دوست اور رہن سہن دلانے میں اس کی کبھی کبھی مدد ہوجائے او یہ بھی کبھی سانس لے تو خوشگوار ہوا اس کا مقدر بن سکے۔

لیکن اس کی زبان نہیں، اس کو کوئی گنتا نہیں، لیکن گنتی تو سجوبابا (بھٹہ مزدور) کے خاندان کی بھی نہیں، سڑک سے دور دور ہی امیداواروں کی گاڑیاں گزرتی ہیں رہائشی آبادیوں محلوں کالونیوں دیہی و شہری جانب، لیکن ان بھٹوں جو کہ شہروں اور دیہاتوں کے اطراف میں اپنے کام میں مگن ہیں، یہ پاکستان ہی میں رہنے والے ہیں لیکن نسل در نسل غلامی کا شکار ہیں جنہوں نے ایک بھٹہ سے دوسرا بھٹہ نہیں دیکھا۔

سجو بابا (بھٹہ مزدور) حیدر علی جنوبی پنجاب کے دور افتادہ خشت بھٹہ پر کام کرتا ہے۔ کچھ سال پہلے انہوں نے اپنے آجر سے قرض لیا تھا جسے وہ واپس نہیں کر سکا۔ اب رقم ادا کرنے تک وہ اسی جگہ کام پر مجبور ہے۔

جمعرات کی جمعرات حساب ہوتا ہے، برائے نام اجرت ملتی ہے جو پاس موجود کریانہ دکان سے ادھار لئے راشن کے پیسے دینے میں لگ جاتی ہے۔

کہنے کو نور بی بی (کم سن بھٹہ مزدور) سجوبابا کی بھانجی ہے لیکن سجوبابا کے بیٹے یونس جس کی عمر 18 سے 19سال کے درمیان ہے، اس کی شادی نور بی بی سے ہوئی ہے۔

یونس بھی بے چارہ کیا کرے اسے جہاں کہہ دو بیٹھ جائے بیٹھ جاتا ہے، والدین ہی نہیں بلکہ خالہ، ماما، چاچا سمیت تمام رشتہ داروں کی بات مانتا ہے۔ تعلیم کتنی ہے صفر، سوچ کیا ہے ، بس یہی کہ ادھار اتارنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سخت گرمی ہو یا شدید سردی، حیدر کو روزانہ 1,000 اینٹیں تیار کرنا ہوتی ہیں۔ اگر وہ بیمار پڑ جائے اور کام پر نہ آ سکے تو ان دنوں کی دیہاڑی ان کے قرض میں شامل کر دی جاتی ہے۔

حکومت نے بھٹہ مزدوروں کے لیے 1,000 اینٹیں بنانے کی کم از کم اجرت 2,368 روپے مقرر کر رکھی ہے لیکن حیدر کو کبھی اپنے کام کا پورا معاوضہ نہیں ملا۔

یاد رہے کہ پاکستان بھر میں اینٹوں کے 18 ہزار سے زیادہ بھٹے ہیں جہاں تقریباً 45 لاکھ مزدور نور بی بی اور اس کے خاندان جیسے حالات سے دوچار ہیں۔ یہ مزدور بھٹوں کا دھواں ان مزدوروں میں پھیپھڑوں کے کینسر اور دیگر بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔ اینٹوں کے لیے مٹی گوندھنے کے عمل میں ان کی جلد متاثر ہوتی ہے۔ اگر کوئی مزدور کام کے دوران بیمار پڑ جائے تو اسے علاج معالجے کے لیے بھٹہ مالک سے کوئی مدد نہیں ملتی۔

نور بی بی کی طرح اس کمیونیٹی کی لڑکیوں کی کم عمری میں شادی ہوتی ہے۔ اسی طرح متعدد لڑکیاں خوراک کی کمی ، بلڈ پریشر کی کمی سمیت زچگی کے مسائل کا شکار ہوتی ہیں۔ کم سن حاملہ مائیں ایک ننھی جان کو پیٹ میں لئے بھوکی پیاسی کام کرتی ہیں تو وہ بے چاری بے ہوش ہوجاتی ہیں تو ہی پانی کا قطرہ ان کے حلق سے نیچے جاتا ہے، نمک چٹا کر دائی کے پاس لے جاتے ہیں جو پیٹ بھر کھانے کو کہہ بھی دیں تو حمل میں کھانے کا دل کہاں کرتا ہے کہ اس بہانے بھی پیٹ بھر روٹی نصیب نہیں ہوتی۔

بھٹہ مزدوروں کے بچوں کو تعلیم کے مواقع بھی نہیں ملتے۔ ان کے کام کی جگہ پر بیت الخلا کی سہولت بھی نہیں ہوتی جس سے خاص طور پر خواتین مزدوروں کو ہراسانی اور جنسی استحصال کا خطرہ رہتا ہے۔

کل 8 فروری کو الیکشن ہیں, آج نور بی بی اور اس کے گھروالے شہر جانے کی تیاری کررہے ہیں, نور بی بی کو ایک دن باغ دکھائے جائیں گے رات کو شہر کی بتیاں دیکھیں گے۔ قلفی کھانی ہے، دن کا کھانا، رات کو شائد بادام والی دودھ کی بوتل بھی مل جائے۔ اس کے لئے یونس نے مالک سے کچھ رقم اُدھار لے رکھی ہے، اس طرح اب اس خاندان پر اور ادھار چڑھ گیا۔ نور بی بی کی ڈیلیوری ہوگی تب بھی اُدھار اٹھانا ہوگا۔

سوال ہے کہ سجوبابا کے خاندان کو آج کل چھٹیاں کیوں ملیں۔ بھئی الیکشن کی گہماگہمی کا حصہ بھٹہ مالکان بھی بنیں گے۔ بہت کام ہوتا ہے۔ لیکن سجوبابا کے خاندان میں کسی کے پاس شناختی کارڈ نہیں۔ محتاط اندازے کے مطابق پنجاب میں 60 فیصد بھٹہ مزدور شناختی کارڈ سے محروم ہیں ۔ صرف پنجاب ہی میں نہیں بلوچستان کے پی سندھ میں بھی حالات اسی طرح کے ہیں۔

جہاں 60 سے 70 فیصد مزدور شناختی کارڈ سے محروم ہیں، جبکہ اسلام آباد کے اطراف میں صورت حال قدرے بہتر ہے، جہاں 50 فیصد بھٹہ مزدوروں کے شناختی کارڈ بنے ہوئے ہیں، لیکن 50 فیصد ابھی بھی محروم ہیں۔

فروری 2021 میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ایک کیس میں ریمارکس دیئے ہیں کہ بھٹہ مزدور قرض کے طور پر لے گئے ’ایڈوانس‘ (پیشگی) رقم کو واپس کرنے کے پابند نہیں ہیں۔

یاد رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیف جسٹس اطہر من اللہ بچوں سے مزدوری کروانے سے متعلق ایک کیس کی سماعت کررہے تھے۔

سماعت کے دوران عدالت نے کہا کہ پیشگی قرض دینا ایک غیر قانونی عمل ہے۔

معزز عدات نے ضلعی انتظامیہ کو ہدایت کی کہ وہ ایک آگاہی مہم چلائیں جس میں بتایا جائے کہ مزدور اپنی مرضی کے بغیر بھٹہ پر کام کرنے کے پابند نہیں ہیں اور وہ اپنی مرضی سے نوکری بھی تبدیل کرسکتے ہیں۔

عدالت نے ایک کمیشن تشکیل دیا تھا، جس کا مقصد بھٹوں پر کام کرنے والے مزدوروں کے حالات اور معاملات دیکھنا تھا، کمیشن میں ڈپٹی کمشنر حمزہ شفقت، وکلا عدنان حیدر رندھاوا اور عمر گیلانی اور نیشنل پریس کلب کے صدر شکیل انجم شامل تھے۔

رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ بھٹہ مزدوروں کو پیشگی رقم کی فراہمی غیر قانونی ہے کیوں کہ یہ جدید دور میں لوگوں کو غلام بنانے کا نیا طریقہ ہے۔

کمیشن نے یہ نشاندہی بھی کی کہ پیشگی قرض میں توسیع کا عمل بغیر کسی استثنیٰ کے بھٹہ کے شعبے میں حد سے زیادہ پھیل رہا ہے جس کے نتیجے میں اس شعبے میں وسیع پیمانے پر ملازمین کو پابند کیا جا رہا ہے اور یہ ایبولیشن (خاتمہ) ایکٹ 1992 کی خلاف ورزی ہے۔

رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ بیشتر بھٹہ مزدور اینٹوں کے بھٹے کی حدود میں ہی اپنے اہل خانہ کے ساتھ قیام پذیر ہیں اور خواتین اور بچوں کو خاندان کے سرپرست کے ساتھ غیر رسمی طور پر کام کرنے کے لیے کہا جاتا ہے۔

علاوہ ازیں انہیں ایک فرد کے مزدور کے طور پر کام کرنے کے بجائے ایک خاندان کے طور پر اینٹوں کے بھٹے پر کام کرنے کو کہا جاتا ہے، یہ عمل بچوں اور خواتین سے متعلق مزدور قوانین کی خلاف ورزی ہے۔

کمیشن نے تجویز دی کہ اسلام آباد کیپٹل ٹیراٹری کا لیبر ڈپارٹمنٹ 3 ماہ میں فیکٹریز ایکٹ 1934 کے تحت اپنی حدود میں تمام اینٹوں کے بھٹے رجسٹرڈ کرنے کو یقینی بنائے جس کا آغاز یکم فروری سے ہوگا۔

رپورٹ میں یہ بھی تجویز دی گئی کہ لیبر ڈپارٹمنٹ اس بات کو بھی یقینی بنائے کہ لیبر قوانین کے مطابق ملازمت کے معاہدے اور تجویز کردہ رجسٹریشن کا عمل مکمل ہو، اس میں مزید کہا گیا کہ نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کو ہی ہدایات دی جانی چاہیے کہ وہ آئندہ 3 ماہ میں اپنی ٹیموں کو بھٹہ مزدوروں، ان کے اہل خانہ (خواتین اور بچوں) کے اندراج اور مزدوروں کو قومی شناختی کارڈ کا اجرا کریں۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ 14 سال سے کم عمر کسی بھی بچے کو اینٹوں کے بھٹے پر مزدوری کی اجازت نہیں ہونی چاہیے اور یہ قانون، تعمیرات کے کام کے تحت آتا ہے اور بچوں کی ملازمت کے ایکٹ 1991 کے شیڈول ٹو میں ممنوع ہے۔

بعد ازاں عدالت نے ضلعی انتظامیہ سے کمیشن کی رپورٹ پر عمل درآمد سے متعلق رپورٹ طلب کرلی تھی جس پر سی ڈی اے نے بھی ایشن لیا تھا۔ اسی دوران اسلام آباد میں ایک سماجی ادارہ پتن ترقیاتی تنظیم نے اسلام آباد کے اطراف میں موجود خشت بھٹہ جات پر کام کرنے والے بھٹہ مزدوروں کے شناختی کارڈز بنوانے کے لئے نادرا کی معاونت کے ساتھ کام کیا۔

تاہم ملک بھر میں موجود ہزاروں 50 سے 70 فیصد بھٹہ مزدور کل ووٹ کاسٹ کرنے کے حق سے محروم رہیں گے۔

تعلیم صحت معاشی ترقی کی سہولیات سے محروم یہ لوگ اپنے نصیب میں نسل در نسل غلامی نہیں لائے بلکہ آزاد وطن میں یہ غلام جانے کب تک غلام رہیں گے ان کو ووٹ کا حق کب ملے گا، شائد ان کو معلوم نہیں، بس یہ پتا ہے کہ الیکشن کے دنوں میں چھٹیاں ہوتی ہیں اور تب ہی وہ شہر سیر کے لئے جاتے ہیں اور انہیں ادھار پیسے مل جاتے ہیں ان کے کھاتے میں اور پیشگی چڑھ جاتی ہے۔

بھٹہ مزدور خاتون کا کہنا ہے سب کہتے ہیں کہ 18 سال کہ عمر میں لڑکی کا شناختی کارڈ ہو تو شادی کرو ہمارے پاس تو ب فارم بھی نہیں۔ کم عمری کی شادی کرنے پراس لیے مجبور ہیں کہ ہماری لڑکیاں غیر محفوظ ہیں۔

بھٹہ مزدور کا کہنا ہے کہ ہم ووٹ دینا چاہتے ہیں ہمیں شناختی کارڈ بنوا کر دیا جائے۔

ملتان میں سپارک نمائندہ خرم شہزاد کا کہنا ہے کہ ایک طویل جدوجہد کے بعد 40 فیصد تک بھٹہ مزدوروں کو شناختی کارڈ ملے ہیں، امید کرتے ہیں کہ اس الیکشن میں نہ صحیح اگلے الیکشن تک حکومت اور بھٹا مالکان کے تعاون سے بھٹہ مزدوروں کو درپیش شناختی کارڈ بنوانے کے مسائل حل کیے جائیں گے تاکہ کوئی مزدور بغیر شناخت کے نہ رہ جائے۔

بھٹہ مالکان کا کہنا ہے کہ پیشگی لینا یا دینا بھٹہ مالک اور مزدور کے لئے اہم ہوتا ہے، ہمارا کام بھی پیشگی کے ذریعے بہت چلتا ہے کیونکہ مزدور محنت سے کام کرتے ہیں۔ جبکہ بھٹہ مزدوروں کو شناختی کارڈ بنوانے کے لئے بھی اپنے بھٹہ پر نادرا وین کو اجازت دی جاتی ہے لیکن بہت سی پیچیدگیوں کی وجہ سے بھٹہ مزدور دستاویزات نہ ہونے کی وجہ سے شناختی کارڈ سے محروم ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم حکومت کی جانب سے بھٹہ مزدوروں کو تعلیم صحت و دیگر سہولتوں کی فراہمی کے لئے مکمل تعاون کو لئے تیار رہے ہیں ۔

درج بالامنظر نامہ بتاتا ہے کہ کل پاکستان کے 60سے 70فیصد بھٹہ مزدورحق رائے دہی سے محروم رہیں گے۔

یعنی نور بی بی جیسی کم سن لڑکیاں جانے کب تک کم عمری کی شادی، تعلیم سے محرومی، نور بی بی کے خاندان کے بچے سوکڑے کا شکار، عورتیں انیمیا (خون کی کمی) کا شکار جبکہ بچے جوانی کے بجائے بڑھاپے میں قدم رکھیں گے لیکن یہ کسی کے ووٹر نہیں۔

الیکشن مہم کے دوران کوئی امیدار اور سپورٹر ان سے ووٹ کی اپیل نہیں کرتا تو اپنا حق کس سے مانگیں گے۔ اس وقت ملک بھر بھٹہ مزدوروں کے حقوق کی جدوجہد کرنے والی گنی چنی تنظیمیں موجود ہیں، جانے کب آزاد وطن کے یہ غلام شناختی کارڈ کے ذریعے پاکستانی شہری اور ووٹر کہلائیں گے، کب سیاست دانوں کو اپنے حقوق کے لئے جوابدہ کریں گے۔ کب تک کام کے دوران نور بی بی جیسی کم سن دلہنیں حاملہ ہو کر بے ہوش ہوتی رہیں گی، آخر کب تک۔

Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں