پی ٹی آئی کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے حق میں نہیں تھا عدم اعتماد کی تحریک پیپلزپارٹی چلا رہی تھی، جب لوگ ٹوٹ کر ہمارے پاس آئے تو جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید رابطے میں تھے، پی ٹی آئی کی حکومت اسٹیبلشمنٹ نے ہی بنائی اور انہوں نے ہی گرائی،مولانا فضل الرحمان کی گفتگو

جمیعت علماء اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے حق میں نہیں تھا،عدم اعتماد کی تحریک پیپلزپارٹی چلا رہی تھی،جب یہ لوگ ٹوٹ کر ہمارے پاس آئے تو جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید ہمارے ساتھ رابطے میں تھے، پی ٹی آئی کی حکومت اسٹیبلشمنٹ نے ہی بنائی اور انہوں نے ہی گرائی۔

انہوں نے سماء نیوز کے ساتھ خصوصی گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ 2018 میں بھی دھاندلی ہوئی تھی اب بھی دھاندلی ہوئی ہے۔ بظاہر الیکشن میں دھاندلی کا فائدہ مسلم لیگ ن کو ہوا ہے، افواہ ہے کہ نوازشریف کو لاہور کی سیٹ دی گئی ہے۔ پی ڈی ایم میں اختلافات کے باوجود ہم اکٹھے چل رہے تھے، پی ٹی آئی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے حق میں نہیں تھا، پی ٹی آئی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیپلزپارٹی چلا رہی تھی،میں اگر تحریک عدم اعتماد سے انکار کرتا تو کہا جاتا کہ پی ٹی آئی کو سپورٹ کررہا ہوں، میرے پاس فیض حمید آئے اور کہا کہ سسٹم میں رہ کر جو کرناچاہیں کرسکتے ہوہمیں کوئی اعتراض نہیں، فیض حمید نے کہاکہ سسٹم سے ہٹ کر نہیں سسٹم میں رہ کرکریں۔

، سسٹم میں رہ کر مزاحمت کرنے کا مطلب اسمبلیوں میں بیٹھ کر کرنا ہے لیکن میں نے انکار کردیا تھا۔ تحریک عدم اعتماد جنرل باجوہ کے کہنے پر لائی گئی، پی ٹی آئی، بی اے پی ، ایم کیوایم والے جب آئے تو پھر کہا گیا اب ہمارے پاس اکثریت ہے، پی ٹی آئی کے اتحادی اور لوگ ٹوٹ کر ہمارے پاس آرہے تھے، جب یہ لوگ ٹوٹ کر ہمارے پاس آئے تو جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید ہمارے ساتھ رابطے میں تھے، پی ٹی آئی کی حکومت اسٹیبلشمنٹ نے ہی بنائی اور انہوں نے ہی گرائی، جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمیدکی موجودگی میں سب کو کہا گیا کہ آپ نے ایسے کرنا ہے، اس پر بعد میں پیپلزپارٹی اور ن لیگ نے مہر لگائی۔

انہوں نے کہا کہ اب فیصلے ایوان میں نہیں میدان میں ہوں گے، میری نظر میں موجودہ پارلیمنٹ کی کوئی حیثیت نہیں، ہم پارلیمنٹ میں تحفظات کے ساتھ جارہے ہیں، ہم حکومت سازی کا حصہ نہیں اگر حکومت میں شامل ہوتے تو ن لیگ کو سپورٹ کرتے، ہم نے پہلے بھی مسلم لیگ ن کی سپورٹ کی تھی آئندہ بھی کرتے۔ اگر اسٹیبلشمنٹ کا مئوقف ہے کہ الیکشن شفاف ہوئے ہیں تو پھر 9 مئی کا بیانیہ دفن ہوگیا ، اگر شفاف الیکشن کا مئوقف مان لیا جائے تو کیا پھر لوگوں نے غداروں کو ووٹ دیئے؟میرا اصل مسئلہ اور دعویٰ تو اسٹیبلشمنٹ پر ہے، میں ایسی حکومت بنانے کو کامیاب حکمت عملی نہیں سمجھتا، حکومت بنانے کا فیصلہ کیا ہے تو اچھے برے کے خود ذمہ دار ہوں گے۔

ہمارا مئوقف یہ ہے کہ پی ٹی آئی کیلئے ہم سے دھاندلی کی گئی۔ شہبازشریف آئے تھے ہم نے کہا کہ اپوزیشن میں بیٹھیں جواب دیئے بغیر چلے گئے۔ پی ٹی آئی والوں کے ساتھ دماغ ملنے کا فرق ہے جو ختم ہوسکتا ہے، جب پی ٹی آئی والے آئیں تو پتا چلے گا کیا بات کرتے ہیں۔

Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں