چین اور روس نے اقوام متحدہ میں امریکا اور برطانیہ پر یمن کی حوثی ملیشیا کو غیر قانونی طور پر نشانہ بنانے اور بحیرہ احمر میں بین الاقوامی جہاز رانی میں خلل ڈالنے کا الزام عائد کیا ہے۔
اس کے جواب میں امریکی نائب مندوب رابرٹ وڈ اور برطانوی سفیر باربرا وڈ ورڈ نے کہا کہ حوثی ملیشیا پر امریکا اور برطانیہ کے حملے بالکل درست ہیں اور ایسا کرنا بحیرہ احمر کے پانیوں میں بین الاقوامی جہاز رانی کو جاری رکھنے کے لیے ناگزیر تھا۔
باربرا وڈورڈ نے کہا کہ حوثی ملیشیا کے حملوں سے بین الاقوامی جہاز رانی متاثر ہو رہی ہے اور لاگت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
روس کے نائب مندوب دمتری پولینسکی اور چین کے مندوب ژھینگ جُن نے کہا کہ سلامتی کونسل نے یمن کے خلاف فوجی کارروائی کی اجازت نہیں دی تھی۔
امریکا و برطانیہ اور چین و روس کے سفارت کاروں کے درمیان یہ لفظی مناقشہ اس وقت رونما ہوا جب یمن کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی ہانس گرنڈ برگ نے کہا کہ علاقائی کشیدگی اور بالخصوص غزہ میں جاری لڑائی سے یمن میں قیامِ امن کی کوششوں کو شدید دھچکا لگا ہے۔ اس کے نتیجے میں بحیرہ احمر میں کشیدگی بھی بڑھی ہے۔
غزہ میں اسرائیلی فوجی کارروائیوں کے جواب کے طور پر یمن کی حوثی ملیشیا نے بحیرہ احمر میں امریکا، برطانیہ اور اسرائیل کے جہازوں کو نشانہ بنایا ہے۔ اس کے جواب میں امریکا اور برطانیہ نے یمن میں حوثی ملیشیا کے ٹھکانوں پر حملے کیے ہیں۔ ان حملوں سے بحیرہ احمر میں تیل اور دیگر تجارتی مال کی ترسیل شدید متاثر ہوئی ہے۔ بہت سی آئل کمپنیز نے متبادل روٹ اختیار کیے ہیں جس کے نتیجے میں لاگت بڑھ گئی ہے۔
امریکی نائب مندوب نے کہا کہ بحیرہ احمر اور یمن میں حوثی ملیشیا کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ وہ بحیرہ احمر اور امریکا، برطانیہ اور اسرائیل کے جہازوں پر حملے کرنے کے قابل نہ رہے اور حقیقی امن کی راہ ہموار ہو۔