’یہ تمام قصور صرف باجوہ کے سر، ہم دونوں جنرلز پر ڈالتے ہیں‘ ہم بتانا چاہتے تھے کہ باجوہ کے ساتھ جنرل فیض بھی تھے، محمد زبیر

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی رہنماؤں میں سے ایک اور ماہر قانون حامد خان کا کہنا ہے کہ ہمارے قانون میں گنجائش ہے کہ کوئی جج چاہے تو خود کو کسی بھی بینچ سے الگ کر سکتا ہے ، کوئی اسے مجبور نہیں کرسکتا۔

آج نیوز کے پروگرام ”فیصلہ آپ کا“ میں گفتگو کرتے ہوئے حامد خان نے کہا کہ ماضی میں جو کارروائی ہوئی اس کے پس منظر میں ان چار جج صاحبان نے فیصلہ کیا کہ ان کا اس معاملے میں شامل ہونا مناسب نہیں ہے، انہوں نے اپنے اختلافی نوٹ دئے اور خود کو الگ کرلیا۔

انہوں نے کہا کہ یہ کافی حد تک غیر معمولی ہے، عموماً ہماری تاریخ میں ایسا نہیں ہوتا۔ لیکن اس میں ایسی کوئی تشویش والی بات نہیں ہے، کورٹس کوئی رجمنٹ نہیں جنہیں اکٹھا پریڈ کرنی ہوتی ہے، کورٹس میں اپنی اپنی سوچ کے لوگ ہوتے ہیں، سوچ کے بارے میں اگر کسی کے اپنے اختلافات ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔

حامد خان نے کہا کہ امریکا میں آج تک بڑے فیصلے پانچ دو کے تناسب سے ہوئے ہیں۔

ججز کی آڈیو لیک پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آڈیو ویڈیو لیکس کے حوالے سے پہلے سے فیصلے اور قانون موجود ہیں کہ ان کی درست طریقے سے انکوائری ہونی چاہئیے، انکوائری سے پہلے آپ ان پر بھروسہ یا رائے پیش نہیں کرسکتے۔

پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کی تاریخ پر سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ازخود نوٹس کوئی اعتراض کی بات نہیں ہے، دو ججز نے چیف الیکشن کمشنر کو بلایا اور ان سے پوچھا کہ الیکشن کیوں نہیں کروا رہے، اس نے اپنی وجوہات بیان کیں، کورٹ بات سن رہی ہے اور بات سنتے ہوئے ان کی توجہ اس نکتے پر آئی کہ ہاں آئین کی خلاف ورزی ہورہی ہے، ان کی باتوں سے ظاہر ہورہا ہے کہ یہ آئین کے بجائے دوسرے معاملوں میں اس معاملے کو التوا میں ڈالنا چاہتے ہیں۔

پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی رہنما علی محمد خان نےفواد چوہدری کے اسمبلیوں میں ممکنہ واپسی کے بیان کا دفاع کرتے ہوئے کہ کہا ہم نے بہتر سمجھا کہ اپوزیشن میں بیٹھا جائے، اگر آپ کسی پارٹی کے ٹکٹ پر ایوان میں آئے ہیں تو نشست چھوڑیں اور پھر جس پارٹی کو چاہے جوائن کریں۔

آج پیشی کے موقع پر صحافیوں پر پولیس تشدد اور کارکنان کی ہنگامہ آرائی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے باہر کوئی بدنظمی نہیں ہوئی، عدالت پر حملے کا تاثر دینا غلط ہے، ہم نے کارکنوں کو احاطہ عدالت میں نعرے بازی سےروکا، جوڈیشل کمپلیکس میں کارکنوں کا رش زیادہ تھا، ہنگامہ آرائی کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا، حکومت ڈرامے کر رہی ہے۔

اس حوالے سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور مریم نواز کے ترجمان محمد زبیر کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی اپنے کارکنوں کو خود جمع کرتی ہے، پولیس کو روکنے کیلئے کارکنوں کو بلایا جاتا ہے، ان کی لیڈر شپ خود کارکنان کو بلاتی ہے کہ تمام کارکنان زمان پارک پہنچ جائیں۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان چاہتے تو پیشی سے پہلے کارکنان کو روکنے کیلئے اعلان کرسکتے تھے، لیکن مراد سعید گاڑی کی چھت پر چڑھ کر نعرے لگوا رہے تھے، عمران خان کیلئے قانون کا معیار الگ نہیں ہونا چاہئے۔

شاہنواز رانجھا کی جانب سے عمران خان کے خلاف ایف آئی آر درج کروانے پر ان کا کہنا تھا کہ عدالت کے باہر ہنگامہ آرائی کے ذمہ دارعمران خان ہیں، عمران خان لیڈر ہیں، انہیں ذمہ داری اٹھانی چاہئیے، انہیں روکنا چاہئیے تھا۔ لیڈر چاہے تو اپنے کارکنوں کو روک سکتا ہے۔

چوہدری پرویز الہیٰ کو پی ٹی آئی میں صدر کا عہدہ دینے کیلئے پارٹی آئین میں تبدیلی کے سوال پر حامد خان نے کہا کہ پی ٹی آئی کے آئین میں سے جاوید ہاشمی کے پارٹی چھوڑنے کے بعد صدر کا عہدہ نکال دیا گیا تھا۔ صدرکا ہونا مناسب نہیں ہے، چئیرمین اور صدر دو ایک جیسے عہدے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پارٹی آئین میں تبدیلی کا بھی ایک طریقہ کار ہونا چاہئیے ، یہ روز روز تبدیل نہیں ہوسکتا، اس کیلئے نیشنل کونسل بلائی جاتی ہے، ہر جماعت میں ایسا ہوتا ہے یہاں ایسا کچھ نہیں ہوا۔

صدر کا عہدہ پرویز الہیٰ کو ہی کیوں؟ اس سوال کے جواب میں علی محمد خان کا کہنا تھا کہ پرویز الہیٰ عمران خان کے ساتھ کھڑے رہے ہیں انہوں نے نبھایا ہے، اس وجہ سے خان صاحب نے ان کو صدر کے عہدے سے نوازا ہے۔

پانچ کے ٹولے سے جنرل (ر) باجوہ کو نکالے جانے کی وجہ بیان کرتے ہوئے محمد زبیر نے کہا کہ انہیں اس لئے نکالا گیا کہ پی ٹی آئی نے انہیں بہت ٹارگٹ کیا، ہم بتانا چاہتے تھے کہ ان کے ساتھ جنرل فیض بھی تھے، یہ کہتے ہیں کہ جنرل فیض بہترین جنرل تھے لیکن باجوہ برے جنرل تھے، حالانکہ دونوں ساڑھے پانچ سال تک ایک دوسرے کے ساتھ کام کررہے تھے، یہ تمام قصور جنرل باجوہ کے سر ڈالتے ہیں، ہم دونوں پر ڈالتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پانچ کے ٹولے میں تو پانامہ والے تمام پانچ ججز کا ذکر بھی نہیں آیا۔ ججز اور جنرلز نے مل کر جو پاکستان کے ساتھ کھلواڑ کیا تھا اس کی توثیق خود عمران خان کرتے ہیں۔

محمد زبیر نے کہا کہ حامد خان کہتے ہیں ازخود نوٹس ان کا حق بنتا ہے، لیکن میرا نہیں خیال کہ ڈوگر کا کیس سنتے سنتے وہ چیف الیکشن کمیشن کو بلا لیں، میرا نہیں خیال کہ اس میں کوئی رشتہ تھا۔

انہوں نے سوال اٹھائے کہ سینئیر نو ججز کا لارجر بینچ بنا ہی لیا تھا تو پھر اس میں پک اینڈ چوز کیوں کر رہے ہیں، کیوں جسٹس فائز عیسیٰ کو باہر رکھ رہے ہیں، کیوں ان دو ججز کو شامل کر رہے ہیں جن پر سوالیہ نشان ہے، ایک جج ن لیگ کے 75 یا 80 فیصد کیسز میں ہوتے ہیں ، جو تین رکنی بینچ بنتا ہے اس میں ایک یہ ہوتے ہیں۔

اسی پر بات رکتے ہوئے حامد خان نے کہا کہ ہم بارہا کہہ چکے ہیں سینئیر ججز کو آئینی مقدمات میں بیٹھنا چاہئیے، اس معاملے میں جسٹس بندیال نے بارہا یہ غلطی کی ہے کہ سینئیر ججز کو اگنور کیا ہے، ساری بار کہتی ہے کہ آپ جب بھی بینچ بنائیں تو کوئی کنٹروورسی نہیں ہونی چاہئیے۔

Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں