افغانستان کی وزارت خارجہ نے پکتیکا اور خوست صوبوں پر فضائی حملوں کے نتیجے میں پاکستان سے احتجاج کیا ہے اور ڈھکے چھپے الفاظ میں دھمکی بھی دی ہے۔
پیر کو افغان صوبے پکتیا سے پاکستان کے ضلع کرم میں مارٹر گولے فائر کیے گئے، جس کے بعد فائرنگ کے تبادلہ ہوا اور افغانستان کے سرحدی علاقوں میں پاکستانی فضائیہ کی بمباری کی غیر مصدقہ اطلاعات بھی گردش کر رہی ہیں۔
ذرائع کے مطابق افغانستان کی جانب سے گولہ باری کے نتیجے میں پاکستان میں کچھ لوگ زخمی ہوئے ہیں۔
دوسری جانب افغان طالبان کی ترجمان نے دعویٰ کیا کہ پاکستان نے پکتیکا اور خوست صوبوں میں بمباری کی ہے جہاں اٹھ افراد مارے گئے۔
طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک بیان میں کہا کہ پیر کو پاکستانی فضائیہ کے حملے میں پکتیکا صوبے کے برمل میں تین خواتین اور تین بچے ہلاک ہوئے جبکہ دو دیگر خواتین صوبہ خوست میں ہوئے ایک حملے میں ہلاک ہوئیں۔
ذبیح اللہ مجاہد نے کہا، ’اس طرح کے حملے افغانستان کی خودمختاری کی خلاف ورزی ہیں اور اس کے برے نتائج ہوں گے جن پر یہ ملک قابو نہیں پا سکے گا۔‘
افغان وزارت دفاع کی جانب سے بھی اسی طرح کے حملوں کا دعویٰ کیا گیا۔
افغان وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’پاکستانی فوجیوں کے حملوں کے نتیجے میں خواتین اور بچوں کی شہادت کے ردعمل میں کابل میں موجود پاکستانی سفیر کو طلب کیا گیا ہے اور پاکستان کو احتجاجی خط ارسال کیا گیا ہے‘۔
افغان وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ ’حملوں کی مذمت کے ساتھ ساتھ وزارت خارجہ نے پاکستان کو آگاہ کیا کہ امارت اسلامیہ افغانستان کو دنیا کی سپر پاورز کے خلاف آزادی کے لیے لڑنے کا طویل تجربہ ہے اور وہ اپنی سرزمین پر کسی بھی طرح کی جارحیت کو برداشت نہیں کر سکتی‘۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ ’نئی (پاکستانی) سویلین حکومت اور پاکستانی عوام کے کچھ حلقوں کو اپنے غیر ذمہ دارانہ اقدامات اور غلط پالیسیوں سے دونوں پڑوسی مسلم ممالک کے تعلقات کو مزید پیچیدہ کرنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے‘۔
افغان میڈیا کا کہنا ہے کہ صوبہ پکتیکا کے ضلع برمل کے علاقے انگور اڈہ اور ڈنڈ پٹن میں طالبان اور پاکستانی فوج کے درمیان لڑائی جاری ہے۔
ابھی تک اس لڑائی میں ہونے والے جانی و مالی نقصان کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ہے۔
افغان میڈیا کے مطابق پاکستان کی جانب سے یہ مبینہ حملے ہفتے کو سات پاکستانی فوجیوں کی شہادت کے بعد ہوئے ہیں۔ صدر آصف علی زرداری نے شہداء کے جنازے میں بدلہ لینے کا وعدہ کیا تھا جن میں ایک لیفٹیننٹ کرنل بھی شامل ہیں۔
انہوں نے کہا، ’جو بھی ہماری سرحدوں، گھروں یا ملک میں داخل ہو کر دہشت گردی کی کارروائیوں کا ارتکاب کرے گا، پاکستان اس کا سخت جواب دے گا، چاہے وہ کوئی بھی ہو یا کسی بھی ملک سے ہو۔‘
افغانستان کے سرحدی علاقے طویل عرصے سے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) جیسے دہشتگرد گروہوں کی پناہ گاہ بنے ہوئے ہیں، جو افغانستان سے متصر غیر محفوظ سرحد کے پار کارروائیاں کرتے ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے سابق قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندوں میں مزید حوصلہ پیدا ہوا ہے، اور ٹی ٹی پی نے سیکیورٹی فورسز کے خلاف حملوں میں اضافہ کردیا ہے۔
جبکہ افغان طالبان ٹی ٹی پی کو پناہ دینے سے انکار کرتے ہیں۔