ہم لوگ بھی یہاں بیٹھ کر ڈرامہ ہی کر رہے ہیں، ایک جگہ لکھا ہوا کاغذ ہے اور دوسری جگہ سر پر بندوق ہے گھر والوں اور کیریئر کو خطرہ ہے،جیل حکام ، آر پی او پولیس سب کٹھ پتلیاں ہیں، سب کو پتہ ہے کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے، عمران خان سے آن لائن ملاقات سے انکار کروانے کے کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس سردار اعجاز کے ریمارکس

عمران خان سے آن لائن ملاقات سے انکار کروانے کے کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس سردار اعجاز کے ریمارکس، کہا ہم لوگ بھی یہاں بیٹھ کر ڈرامہ ہی کر رہے ہیں، ایک جگہ لکھا ہوا کاغذ ہے اور دوسری جگہ سر پر بندوق ہےم گھر والوں اور کیریئر کو خطرہ ہے،جیل حکام ، آر پی او پولیس سب کٹھ پتلیاں ہیں، سب کو پتہ ہے کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔

تفصیلات کے مطابق جمعہ کے روز اسلام آباد ہائیکورٹ میں بانی پی ٹی آئی سے وکلا کی ملاقات کیلئے درخواست پر سماعت کے دوران سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل نے بانی پی ٹی آئی کی آن لائن ملاقات کرانے سے انکار کردیا۔اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے اس حوالے سے سماعت کی۔عدالت میں سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل نے کہا کہ جیل رولز میں آن لائن ملاقات کی اجازت نہیں، ملاقات نہیں کروا سکتے

عدالت نے کہا کہ میڈیا میں تھا کہ وزیراعلی پنجاب نے کوٹ لکھپت جیل میں آن لائن ملاقاتوں کا اعلان کیا، وزیراعلی نے تو فخریہ کہا کہ پورے ایشیا کی پہلی جیل ہے جہاں یہ سہولت دے رہے ہیں۔عدالت نے کہا کہ اگر جیل رولز میں اجازت نہیں تو کوٹ لکھپت جیل میں غیر قانونی کام کیسے شروع ہوگیا جیل اتھارٹیز اپنے جواب میں یہ کہہ رہی ہیں کہ وزیراعلی پنجاب کا اقدام غیرقانونی ہی جسٹس اعجاز اسحاق بولے کہ آپ کہہ رہے ہیں عدالتی حکم پر عمل نہیں کیا جاسکتا، ترمیم کی ضرورت ہے۔

عدالت میں اسٹیٹ کونسل نے استدعا کی کہ ہمیں مزید ہدایات لینے کیلئے کچھ وقت دے دیں۔عدالت نے کہا کہ ہدایات لینے کی کوئی ضرورت نہیں، سپرنٹنڈنٹ جیل کہہ رہے ہیں کہ رولزا جازت نہیں دیتے، ایک ہی حکومت نے ایک جیل میں آن لائن میٹنگ سے منع کیا جبکہ دوسری میں خود فخریہ وہی کیا۔عدالتی معاون نے کہا کہ سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کا مقف پنجاب حکومت سے الگ نہیں ہونا چاہیے، وہ ان کے ماتحت ہیں۔

اس موقع پر جسٹس سردار اعجاز نے اہم ریمارکس دیے کہ ہم لوگ بھی یہاں بیٹھ کر ڈرامہ ہی کر رہے ہیں، سب کو پتہ ہے کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے، جہاں سے جیل حکام کو آرڈرز آ رہے ہیں وہاں سے آنا رک جائیگے تو یہ سب ختم ہو جائے گا، جیل حکام اور آر پی او پولیس سب کٹھ پتلیاں ہیں، ملک میں دو سو سینئر سول افسر غیرقانونی حکم ماننے سے انکار کر دیں تو نظام ٹھیک ہو جائے گا۔

دو سو افسر ایک ساتھ یہ کر لیں تو یہ سلسلہ رک جائے گا، ایک جگہ لکھا ہوا کاغذ ہے اور دوسری جگہ اسکے سر پر بندوق ہے، گھر والوں اور اسکے کیریئر کو خطرہ ہے، ہم کیوں یہاں بیٹھ کر دکھاوا کر رہے ہیں؟ جب تک دو تین سو ایک نظریے کیلئے قربانی نہیں دینگے یہ ایسے ہی رہے گا۔ عدالت میں شیر افضل مروت نے کہا کہ کوٹ لکھپت میں فخریہ اعلان کیا تاہم یہاں عدالت سے چھپن چھپائی کھیل رہے ہیں۔

جسٹس اعجاز اسحاق خان بولے کہ ہم نے اس نکتے کو جلد ہی طے کرنا ہے، زیادہ وقت نہیں ہے، سوال اب یہ ہے کہ جیل ملاقات میں سیاسی گفتگو ہوسکتی ہے یا نہیں، اگر ہم نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ سیاسی گفتگو ہوسکتی ہے تو پھر ترمیم کرنا ہوگی۔انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ حل ہونے دیں، آن لائن میٹنگ کو اب روکا نہیں جاسکتا، اگر یہ کہیں گے کہ آن لائن میٹنگ نہیں کروا سکتے تو پوری دنیا میں مذاق اڑے گا۔

Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں