مودی سرکار اور ہندو ازم کے گُن گانے والی بالی وُڈ موویز کا سیلاب بی جے پی ووٹ بینک مضبوط کرنے کیلئے فلموں کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے لگی

بھارت میں انتخابات نزدیک آچکے ہیں۔ ایسے میں مودی سرکار اپنا ووٹ بینک مزید مضبوط کرنے کے لیے ممبئی میں تیار کی جانے والی ہندی اور ملک بھر کی ریاستوں میں بنائی جانے ولای علاقائی زبانوں کی فلموں کو پروپیگنڈا وار میں بڑے اور کارگر ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔

برطانوی اخبار گارجین کی ایک رپورٹ کے مطابق بالی وُڈ سے مودی سرکار اور وزیر اعظم نریندر مودی کے گُن گانے والی فلموں کا سیلاب سا آگیا ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی مخالفین کی آواز دبانے کے لیے فلموں کو عمدگی سے بروئے کار لارہی ہے۔

ملک بھر میں ایسی فلموں کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے جن میں زیادہ سے زیادہ سیاسی محاذ آرائی اور سیاسی تقسیم کی بات کی گئی ہو۔ ہندو اکثریت کو اقلیتوں سے ڈرانے والی تھیم بھی فلموں میں مقبول ہے اور اِس تھیم سے بہت سے فلم میکرز کی چاندی ہوگئی ہے۔

اس وقت بالی وُڈ میں ایسی فلموں کا زور ہے جن میں قدیم دور کے ہندو راجاؤں اور مہاراجاؤں کے گن گائے گئے ہوں۔ بائیں بازو کی سوچ رکھنے والی لبرل شخصیات اور مذہبی آہنگی کی تبلیغ کرنے والے دانشوروں کو مجموعی طور پر ولن کی حیثیت سے پیش کیا جارہا ہے۔ حد یہ ہے کہ ملک کی آزادی کی تحریک کی قیادت کرنے والے بابائے قوم موہن داس کرم چند گاندھی کی شخصیت بھی اس ماحول میں دُھندلا سی گئی ہے۔

بالی وُڈ کے فلم میکرز نے بھی تفریح اور سیاست کے درمیان پائی جانے والی حدِ فاصل کو بھی نظر انداز کرنا شروع کردیا ہے۔ حکومت کو خوش کرنے والی فلمیں بنانے پر زور ہے۔ اگلے چند ہفتوں میں ایسی کئی فلمیں ریلیز ہونے والی ہیں جن میں بی جے پی کی فرمائش کے مطابق ہندوؤں کی تاریخ کو بڑھا چڑھاکر بیان کیا گیا ہے اور ہندو دھرم سے تعلق رکھنے والی شخصیات کو ہیرو کی حیثیت میں پیش کیا گیا ہے۔ ونایک دامودر ساورکر کو بھارت کی جنگِ آزادی کا اصل ہیرو بناکر پیش کی جانے والی فلم ’سوتنترتا ویر ساورکر‘ 22 مارچ کو ریلیز کردی گئی ہے۔

15 مارچ کو ایک ایسی فلم ریلیز کی گئی تھی جس میں مشرقی اور شمال مشرقی بھارت کے نکسل باڑی باغیوں کو ’گندا‘ کیا گیا تھا اور اشتراکی دانشوروں اور لبرل شخصیات کو ملک دشمن قرار دیا گیا تھا۔ ایک فلمی نقاد نے بتایا کہ اس فلم میں دو گھنٹے تک اشتراکیت کے خلاف زہر اگلنے سے زیادہ کچھ نہیں کیا گیا۔

بہت سی فلموں میں حقوق کے لیے لڑنے والوں کو بدنام کرنے کی تھیم بھی شامل کی جارہی ہے۔ شمال مشرقی اور مشرقی بھارت میں اپنے حقوق کے لیے لڑنے والے نکسل باغیوں کا تمسخر اڑانے والی فلمیں بھی بنائی جارہی ہیں۔ بی جے پی کے بعض لیڈر اور ریاستی اسمبلیوں کے ارکان بھی فلمیں بنارہے ہیں یا فلم میکرز کی معاونت کر رہے ہیں۔

مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو نشانے پر لے کر بھی فلمیں بنائی جارہی ہیں۔ مسلم لڑکوں سے شادی کرنے والی لڑکیوں کے اس عمل کو ’لو جہاد‘ کی اصطلاح دے کر کئی فلمیں بنائی گئی ہیں۔ ایسی ہی ایک فلم ’دی کیرالا اسٹوری‘ میں بتایا گیا ہے کہ مسلم لڑکے ہندو اور مسیحی لڑکیوں کو ورغلاکر فلمیں بنارہے ہیں۔ اس فلم پر دو ایسی ریاستوں میں پابندی لگادی گئی جہاں اپوزیشن جماعتوں (کانگریس، ڈی ایم کے) کی حکومت ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے اس فلم کی خوب سرپرستی کی۔ اس فلم پر سے تفریحی ٹیکس بھی ختم کردیا گیا اور بی جے پی کے عہدیداروں اور کارکنوں نے اس کی الگ سے اسکریننگ کا بھی خوب اہتمام کیا۔

چنئی کی کریا یونیورسٹی میں ادب کے پروفیسر اور فلمی نقاد ستییندر چودھری ان فلموں کو صرف پروپیگنڈا قرار دیتے ہیں۔ انہوں نے اس بات کو افسوس ناک قرار دیا ہے کہ نریندر مودی اور بی جے پی کی دوسری بہت شخصیات نے متعدد فلموں کا اپنی تقریروں میں ذکر کیا ہے یعنی اب فلموں سے سیاسی تحرک کا کام لیا جارہا ہے۔

’آرٹیکل 370‘ میں مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرکے اُسے بھارت کا حصہ بنانے کا قصہ بیان کیا گیا ہے۔ اس فلم کے ذریعے یہ پروپیگنڈا کیا گیا ہے کہ نریندر مودی نے مقبوضہ جموں و کشمیر کو بھارت کا حصہ بناکر تشدد کی راہ روکی ہے۔

بی جے پی نے جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کو بھی نہیں بخشا۔ دارالحکومت نئی دہلی میں اعلیٰ تعلیم کا یہ ادارہ بائیں بازوں کے لبرل عناصر کے نظریات اور تحریک کا گڑھ رہا ہے اور ملک میں سیکیولر ازم کی جڑیں گہری کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ یہ ادارہ بھی بی جے پی کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتا رہا ہے۔

جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کا امیج خراب کرنے کے لیے ’جہانگیر نیشنل یونیورسٹی‘ کے نام سے فلم بنوائی گئی ہے جس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ بائیں بازو کے دانشور اور کارکن ملک میں ’لو جہاد‘ لانچ کر رہے ہیں یعنی وہ ہندو لڑکیوں کو مسلم لڑکوں سے شادی کی تحریک دے رہے ہیں۔ یہ فلم اپریل میں ریلیز کی جارہی ہے۔

بالی وُڈ کے فلم میکرز بہتی گنگا میں اشنان کر رہے ہیں۔ بی جے پی پروپیگنڈا فلمیں بنانے پر توجہ دی جارہی ہے۔ خوب پیسہ لگایا جارہا ہے۔ بالی وُڈ کے کئی فلم میکرز نے ایسی فلمیں بنانے کو ترجیح دی ہے جس میں ملک کی ہندو اکثریت کو بہلایا پھسلایا گیا ہو۔ اقلیتوں کو نشانہ بنانے والی تھیم اب زیادہ کامیاب ہو رہی ہے۔ اس کے نتیجے میں ملک میں سیاسی، مذہبی اور ثقافتی تقسیم بڑھ رہی ہے مگر اِس کی کسی کو فکر لاحق نہیں۔

Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں