اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز کا عدالتی کیسز میں خفیہ اداروں کی مداخلت پر سپریم جوڈیشل کونسل کو خط، انکشاف کیا کہ گزشتہ ایک سال میں چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ اور جسٹس قاضی فائز عیسٰی کو بھی ججز پر دباو کے واقعات سے متعلق آگاہ کیا گیا، جسٹس عامر فاروق کو گزشتہ سال مئی اور رواں سال فروری میں خطوط لکھے گئے لیکن کوئی ایکشن نہیں لیا گیا، ایک جج کے گھر پر کریکر حملہ ہوا، ایک جج کے قریبی عزیز کو اغوا کیا گیا، ایک جج کے اہل خانہ کی نجی ویڈیوز ریکارڈ کی گئیں۔
اے آر وائی نیوز کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 سینئر ججز کی جانب سے عدالتی کیسز میں خفیہ اداروں کی مداخلت پر سپریم جوڈیشل کونسل کو تفصیلی خط تحریر کیا گیا ہے، جس میں سنگین انکشافات کیے گئے ہیںمیڈیا رپورٹس کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز نے ججز کو دھمکیوں اور دباو سے متعلق جن واقعات کا انکشاف کیا ہے، اس تمام معاملے سے متعلق چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عامر فاروق کو 2 مرتبہ آگاہ کیا گیا۔
سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھے گئے خط میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کو 10 مئی 2023 اور 12 فروری 2024 کو لکھے گئے 2 خطوط بھی منسلک کیے ہیں۔ سینئر کورٹ رپورٹ ثاقب بشیر کے مطابق اسلام آبا د ہائی کورٹ کے مصدقہ ذرائع بتاتے ہیں کہ گزشتہ 2 ہفتوں میں اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز نے معاملہ ہائیکورٹ میں ہی حل کرانے کی بہت کوششیں کیں لیکن تمام صورتیں ناکام ٹھہریں اور ان 6 ججز کو پھر سپریم کورٹ جانا پڑا۔
6 ججز سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھتے ہوئے کہتے ہیں ہر موقع پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عامر فاروق کو تحریری طور پر آگاہ کیا جاتا رہا ہے لیکن انہوں نے کچھ نہیں کیا۔ جبکہ ان 6 ججز نے گزشتہ سال مئی میں اس وقت کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال اور سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسٰی سے بھی ملاقاتیں کی تھیں اور تمام معاملات سے انہیں آگاہ کیا تھا، تاہم تب بھی اس حوالے سے کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔
واضح رہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اسحاق، جسٹس ارباب محمد طاہر، جسٹس ثمن رفعت امتیاز کی جانب سے تحریر کیا گیا ہے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ عدلیہ میں خفیہ اداروں کی مداخلت اور ججز پر اثر انداز ہونے پر جوڈیشنل کنونشن بلایا جائے۔
خط لکھنے والے ججز نے دباؤ کی کوششوں پر 2023 اور 2024 میں لکھے خطوط بھی شامل کیے ہیں۔ ججز نے خط میں کہا ہے کہ خط لکھنےکا مقصد سپریم جوڈیشل کونسل سے رہنمائی لینا ہے، یہ معاملہ جج شوکت عزیز صدیقی برطرفی کیس کے بعد اٹھا ہے، شوکت صدیقی کیس میں ثابت ہوا فیض حمیدعدالتی امورمیں مداخلت کررہے تھے جبکہ خط میں 2023 میں جج کے کمرے سے کیمرہ نکلنے کا حوالہ بھی دیا گیا ہے۔
خط کے متن کے مطابق اس وقت کے آرمی چیف اور وفاقی حکومت نے جسٹس شوکت صدیقی کیخلاف کیس کیا تھا، جسٹس شوکت عزیز صدیقی کےعدالتی امور میں مداخلت کے الزامات کی تحقیقات کرائی جائیں، انہوں نے خود بھی اپنے اوپر عائد لگائے گئے الزامات کی تحقیقات کی درخواست کی۔ خط میں مزید کہا گیا ہے کہ عدالتی امور اور عدلیہ کی کارروائی میں مداخلت کرنے والوں کا احتساب ہونا چاہیے، عدالتی امور میں اس طرح کی مداخلت کو دھمکی کے طور پرلیتے ہیں، ایس جے سی کی گائیڈ لائنز میں اس طرح کی مداخلت کےخلاف کوئی رہنمائی نہیں ملتی، کیا ججز کو دھمکیاں، دباؤ میں لانا یا بلیک میل کرنا حکومتی پالیسی ہے۔
ججز نے خط میں لکھا ہے کہ کیا سیاسی معاملات میں عدالتی فیصلوں پر اثر انداز ہونا حکومتی پالیسی ہے، ججزپر دباؤ، سیاسی معاملات میں فیصلوں پر اثراندازی کی تحقیقات ہونی چاہیے، بانی تحریک انصاف عمران خان کیخلاف کیس کو ناقابل سماعت قرار دینے والے 2 ججوں پر دباؤ ڈالا گیا۔ ایک جج کے گھر پر کریکر حملہ ہوا، ایک جج کے قریبی عزیز کو اغوا کیا گیا، ایک جج کے اہل خانہ کی نجی ویڈیوز ریکارڈ کی گئیں۔ خط میں کہا گیا ہے کہ ایجنسیوں کی مداخلت، ججز پراثر اندازی سراسر توہین عدالت کے زمرےمیں آتی ہے، آرٹیکل 204، توہین عدالت آرڈیننس کے تحت فوری کارروائی شروع کی جائے۔