اپنے بارے میں کچھ نہیں کرنا چاہتا بچپن میں والدہ کہتی تھیں جو کہتا ہے وہی ہوتا ہے،ساتھی جج نے کمرہ عدالت میں بات کر دی تھی جس کے بعد توہین عدالت کارروائی شروع کرنا پڑی،قاضی فائز عیسیٰ کے سماعت کے دوران ریمارکس
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دئیے ہیں کہ میں توہین عدالت کی کارروائی پریقین نہیں رکھتا ہوں، اپنے بارے میں کچھ نہیں کرنا چاہتے کہ بچپن میں والدہ کہتی تھیں جو کہتا ہے وہی ہوتا ہے،ساتھی جج نے کمرہ عدالت میں بات کر دی تھی جس کے بعدتوہین عدالت کارروائی شروع کرنا پڑی۔سپریم کورٹ میں توہین عدالت کیس کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے عدالت میں بتایا کہ توہین آمیز نیوزکانفرنس توروف حسن نے بھی کی ہے اس پرچیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ یہ رو¿ف حسن کون ہے؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ روف حسن کا تعلق پاکستان تحریک انصاف سے ہے اور انہوں نے چیف جسٹس پاکستان اور چیف جسٹس اسلام آبادہائیکورٹ کے بارے میں ایسے توہین آمیز الفاظ کہے ہیں جو دوبارہ دہرانا بھی نہیں چاہتے۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ وہ اپنے بارے میں کچھ نہیں کرنا چاہتے کہ پچپن میں والدہ کہتی تھیں جو کہتا ہے وہی ہوتا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ بچپن میں جو باتیں گلی محلوں میں سنتے تھے اب ٹی وی چینلز پر سنتے ہیں اس پر جسٹس عقیل نے کہا کہ ٹی وی چینلز پر ان لوگوں کو بٹھایا جاتا ہے جنہیں قانون کا کچھ علم نہیں ہوتا اورتبصرے لوگ ایسے کرتے ہیں جیسے 1600 فیصلے لکھ چکے ہیںاس بارے میں کوئی میکنزم نہیں ہے تو بنا لیں۔
جسٹس قاضی فائز نے مزید کہا کہ ہمیں کوئی شوق نہیں کسی کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کریں، کیا کریں مگر معاشرہ تباہ ہو رہا ہے، میڈیا کی آزادی سے متعلق ہم بہت محتاط ہیں۔کورٹ رپورٹنگ کرنے والے معاشرے میں ایک کام کر رہے ہیں، جا کر بتاتے ہیں یہ ہو رہا ہے، اب وہ فیصلے سے پہلے تنقید شروع کر دیں تو کیا کریں، کچھ ایسے ہیں جنہیں لگتا ہے انہیں جج کی کرسی پر ہونا چاہیے۔