کیا چین امریکہ سے بڑی اقتصادی طاقت بن سکتا ہے؟

کیا چین دنیا کی سب سے بڑی معیشت بن کر امریکہ کی جگہ لے سکتا ہے؟ یہ وہ سوال ہے جو اقتصادیات کے ماہرین کے درمیان کئی دہائیوں سے موضوع بحث رہا ہے۔ تو کیا ایسا عنقریب ہونے کو ہے؟

2024ء عالمی اقتصادی منظر نامہ: چین، ٹرمپ اور غیر متوقع عوامل

‘پیک چائنا’، حقیقت یا مفروضہ؟

قریب ایک سال پہلے ہمیں ‘پیک چائنا’ کی اصطلاح کا استعمال بڑھتا ہوا دکھائی دیا تھا، جس کے لفظی معنی ہیں ‘چین کا عروج’۔

یہ اصطلاح دراصل اس نظریے کی نمائندگی کرتی ہے کہ چین کی معیشت اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے اور اب صرف اس کا زوال ہی ممکن ہے۔

اس حوالے سے چین کو درپیش متعدد اقتصادی مسائل، تائیوان کے مسئلے پر تناؤ اور مغربی ممالک اور چین کے مابین تجارتی تعلقات کے ختم ہونے کا حوالہ بھی دیا جاتا ہے۔

ساتھ یہ قیاس آرائیاں بھی کی جا رہی ہیں کہ بطور ایک اقتصادی قوت چین شاید کبھی امریکہ پر سبقت لے ہی نہ پائے۔

یا اگر ایسا ممکن ہو بھی، تو اس میں وقت لگے گا۔

تاہم چین کی رینمن یونیورسٹی سے وابستہ وانگ وین کو اس رائے سے اختلاف ہے۔ ڈی ڈبلیو سے اس بارے میں گفتگو کے دوران انہوں نے پیک چائنا کے نظریے کو مسترد کرتے ہوئے نشاندہی کی کہ 2021ء میں چین کی اقتصادی پیداوار امریکہ کی اقتصادی پیداوار کے تقریباﹰ 80 فیصد تک پہنچ گئی تھی۔

ان کا ماننا ہے کہ اگر چینی حکومت ملک میں استحکام اور بیرون ملک امن کو برقرار رکھ پاتی ہے تو اقتصادی اعتبار سے چین عنقریب امریکہ کو پیچھے چھوڑ دے گا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس وقت دیہی علاقوں میں مقیم لاکھوں چینی افراد شہری علاقوں میں رہائش اختیار کرنے کے خواہشمند ہیں۔ بقول ان کے، “چین میں اس وقت اربنائزیشن (شہری علاقوں میں وسعت) کی شرح 65 فیصد ہے۔ اگر یہ مستقبل میں 80 فیصد ہو جاتی ہے، تو اس کا مطلب دو سو سے تین سو ملین مزید افراد شہروں میں منتقل ہوں گے، جو اقتصادی ترقی کا سبب بنے کا۔

چین 2030ء تک امریکہ سے بھی بڑی معیشت، عالمی بینک

سرمایہ کاری بے سود

اس وقت چین کے کل قرضوں کی مالیت اس کی مجموعی ملکی پیداوار کا 300 فیصد ہے۔ اس کے علاوہ وہاں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں بھی گزشتہ 12 ماہ میں مسلسل کمی دیکھی گئی ہے۔

چین کی جانب سے جدید ٹیکانالوجی کی پیداوار میں اضافے کے لیے خاطر خواہ سرمایہ کاری کی گئی ہے لیکن تب بھی متعدد ممالک نے چین سے آنے والی درآمدات کی تعداد پر حد عائد کر دی ہے۔

اس پس منظر میں یونیورسٹی آف ٹورنٹو میں اقتصادیات کے پروفیسر لورین برانڈ کا کہنا ہے، “یہ ایک ایسی معیشت ہے جس میں افراد اور فرسٹ کلاس انفرا اسٹرکچر میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کی گئی ہے۔ لیکن اس کا اس طرح سے فائدہ نہیں اٹھایا جا رہا جس سے معاشی ترقی کو برقرار رکھا جا سکے۔”

ریاستی ملکیت میں اضافہ

صدر شی جن پنگ کی قیادت میں چین میں صنعتوں کے ریاستی ملکیت میں ہونے پر بھی زیادہ زور دیا جا رہا ہے۔

2000 کے عشرے کے اواخر میں چینی معیشت میں پرائیوٹ سیکٹر کا حصہ تقریباﹰ دو تہائی تھا لیکن پچھلے سال کی پہلی ششماہی میں یہ کم ہو کر صرف 40 فیصد رہ گیا تھا۔ اس کی نسبت معیشت میں ریاستی شیئر میں اضافہ ہوا ہے۔

تو ساتھ ہی ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ جہاں امریکی جریدے فوربز کی دنیا بھر میں بڑی کمپنیوں کی فہرست میں اکثر کمپنیاں چینی ہیں، وہیں یہ بھی نظر آتا ہے کی امریکی کمپنیوں کے مقابلے میں یہ کم منافع کما رہی ہیں۔

امریکی اقتصادیات کے اچھے دن ختم: چین کا تبصرہ

‘مسائل بہت سنگین نہیں’

ایسے میں یہ خدشہ بھی پایا جاتا ہے کہ کہیں چینی معیشت کا جاپانی معیشت جیسا حال نہ ہو۔

دوسری عالمی جنگ کے بعد جاپان میں کئی دہائیوں تک اقتصادی ترقی دیکی گئی تھی لیکن بالآخر 1992ء میں اس ملک کی معیشت تنزلی کا شکار ہوگئی۔

اس موازنے پر چینی ماہر اقتصادیات کا کہنا ہے کہ چین کی صنعتی مجموعی ملکی پیداوار امریکہ کی صنعتی مجموعی ملکی پیداوار سے دو گنا زیادہ ہے۔

اور یہ کہ چین نے کرنسی کے لحاظ سے قوت خرید کے حوالے سے 2016ء میں ہی امریکہ پر برتری حاصل کر لی تھی۔

اس بارے میں وانگ وین کا کہنا تھا کہ پچھلے 45 سالوں میں ترقی کے حوالے سے چین کو کئی مسائل کا سامنا رہا ہے، لیکن جب ان کا موازنہ پچھلی صدی کے مسائل سے کیا جائے تو یہ بہت سینگین معلوم نہیں ہوتے۔

Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں