کوانٹم لیکس، پاکستان میں کوانٹم کمپیوٹنگ کے نام پر بڑھتا فراڈ

2023 میں دنیا بھر سے نجی سرمایہ داروں نے کوانٹم ٹیکنالوجی سٹا رٹ اپس پر ایک اعشاریہ پانچ بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔ اس بڑھتی ہوئی مارکیٹ ویلیو کے باوجود بہت سے ممالک کوانٹم ٹیکنالوجی کے لیے نئے ناگزیر اقدامات میں ابھی بہت پیچھے ہیں جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔ فی الوقت ایک مضبوط کوانٹم ٹیکنالوجی فریم ورک وقت کی ضرورت ہے ورنہ اس میں پیچھے رہ جانے والے ممالک کو سائبر سیکیورٹی کے خطرات اور عالمی معیشت میں شدید مقابلوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔

پاکستان میں کوانٹم ٹیکنالوجی ابھی ابتدائی مراحل میں ہے جس کو فروغ دینے کے لیے ملک میں وسائل اور سہولیات کا فقدان ہے۔

کوانٹم پاکستان، نوجوان کوانٹم ڈپلومہ پروگرام کیا ہے؟

جولائی 2024 میں ڈائریکٹر آف یوتھ افیئرز خیبر پختونخواہ حکومت کی جانب سے اپنے ویریفائیڈ سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر”کوانٹم پاکستان‘‘ کے نام سے ایک ڈپلومہ پروگرام کے آغاز کے اشتہارات جاری کیے گئے تھے۔

اس پروگرام کے تحت صوبے بھر سے نوجوانوں کو کوانٹم کمپیوٹنگ کی تربیت دی جانا تھی۔

ان اشتہارات میں ”سینٹر فار ایکسی لینس فار ٹیکنالوجی کوانٹم اینڈ آرٹیفیشل انٹیلی جینس پاکستان‘‘ کو ڈپلومہ پروگرام کا آفیشل پارٹنر اور اس ادارے کے سربراہ ڈاکٹر زوہیر احمد کو ہیڈ آف پروجیکٹ قرار دیا گیا تھا۔

ان اشتہار ات میں ڈاکٹر زوہیر کے تعارف کے ساتھ پاکستان کے پہلے کوانٹم کمپیوٹر”قائد کوانٹم ون‘‘ کے خالق اور ورلڈ 47 کوانٹم گریویٹی ریسرچر جیسے اعزازات نے عوام و خواص کی توجہ مبذول کی۔

بہت سے حلقوں کی جانب سے ڈاکٹر زوہیر کے ان اعزازات اور اس ادارے کی کریڈیبلیٹی پر سوالات اٹھائے گئے کیونکہ آن لائن ذرائع اور حقیقت میں اس حوالے سے کوئی ثبوت موجود نہیں تھے۔

کوانٹم پاکستان ڈپلومہ پروگرام میں نیا موڑ کب آیا؟

خیبر پختونخوا حکومت کے کوانٹم پاکستان ڈپلومہ پروگرام میں نیا موڑ 25 جولائی 2024 کو آیا۔ جب نوجوان سائنسدان اور فوربس انڈر 30 کے اعزاز کے حامل محمد شہیر نیازی نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے ڈاکٹر زوہیراحمد کے نام نہاد اعزازت کو چیلنج کیا۔

فیس بک، انسٹاگرام، ایکس اور لینکڈ ان پر سائنسی، سماجی اور صحافتی حلقوں کی جانب سے بڑے پیمانے پر آواز اٹھائے جانے کے بعد خیبر پختونخواہ حکومت نے 24 گھنٹے سے بھی کم وقت میں آفیشل بیان جاری کیا کہ ڈاکٹر زوہیر یا ان کے ادارے کے ساتھ صوبائی حکومت کا کوئی ایم او یو سائن نہیں ہوا۔

اس حوالے سے شہیر نیازی نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ کوانٹم ڈپلومہ پروگرام بلاشبہ ایک احسن اقدام ہے۔

دنیا بھر میں کوانٹم کمپیوٹرز کا استعمال تیزی سے بڑھ رہا ہے جس کی وجہ سے سیکیورٹی چیلنجز بھی بڑھ گئے ہیں۔ پاکستان میں اداروں اور عام افراد کو اس حوالے سے زیادہ معلومات نہیں ہیں۔

شہیر بتاتے ہیں کہ کے پی کے ڈائریکٹر یوتھ افیئرز کے جانب سے جاری کردہ اشتہارات جب ان کی نظر سے گزرے تو خوشی کے ساتھ انہیں تشویش بھی ہوئی کیونکہ ڈاکٹر زوہیر اور ان کے ادارے سی ای ٹی کیو اے پی کے بارے میں انہوں نے پہلی دفعہ سنا تھا۔

شہیر کے مطابق آن لائن اور آف لائن کسی بھی ذریعے سے یہ تصدیق نہیں ہوتی کہ ڈاکٹر زوہیر پاکستان کے پہلے کوانٹم کمپیوٹر “قائد کوانٹم ون” کے خالق ہیں۔ نہ ہی کسی بھی جگہ “ورلڈ 47 رینکڈ کوانٹم گریویٹی ریسرچر” کی تصدیق ہوتی ہے۔ حتی کے دنیا بھر میں کہیں بھی ایسی کوئی رینکنگ جاری ہی نہیں کی گئی۔

شہیر نیازی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ مختلف ذرائع سے جعلی شناخت کی تصدیق کے بعد انہوں نے سوشل میڈیا پر اس حوالے سے آواز اٹھائی۔

وہ اس سے پہلے شہاب ثاقب اور نوادرات کی غیر قانونی سمگلنگ اور کئی دوسرے سماجی مسائل بھی سوشل میڈیا کے ذریعے بے نقاب کر چکے ہیں۔

شہیر بتاتے ہیں کہ بڑی تعداد میں شیئرنگ اور ری پوسٹ کے چند ہی گھنٹے بعد ڈاکٹر زوہیر کے وکیل نے نام بتائے بغیر ان کو کال کر کے قانونی چارہ جوئی کا کہا اور ڈاکٹر زوہیر نے ایک نوٹس ان کی ایک پوسٹس پر کمنٹ کی صورت میں شیئر بھی کیا۔

تاہم ابھی تک انہیں ایسا کوئی نوٹس موصول نہیں ہوا۔

شہیر نیازی نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ اسی شام ڈائریکٹر یوتھ افیئرز خیبر پختونخواہ ڈاکٹر نعمان مجاہد نے ان سے رابطہ کر کے اس جعل سازی کو بے نقاب کرنے پر شکریہ ادا کیا۔

ڈاکٹر نعمان مجاہد نے ایک آفیشل بیان میں کہا کہ یوتھ افیئرز کے پی کے کا ڈاکٹر زوہیر یا ان کے ادارے کے ساتھ ”کوانٹم پاکستان ڈپلومہ پروگرام‘‘ سے متعلق کوئی ایم او یو سائن نہیں کیا گیا۔

ڈاکٹر زوہیر کو “ہنر مند خواتین پروگرام کے پی کے” نے ایک ورک شاپ کے لیے مدعو کیا تھا تاکہ صوبے میں جدید ٹیکنالوجی کو فروغ دیا جا سکے۔

اس آفیشل بیان میں مزید کہا گیا کہ پاکستان ہنرمند خواتین پروگرام کے کہنے پر ہی صوبے کے نو جوانوں کو اس نئی فیلڈ کی طرف راغب کرنے کے لیے ایک گوگل لنک جاری کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ جو کچھ مواد آن لائن موجود ہے وہ ڈا کٹر زوہیر کے ادارے سی ای ٹی کیو اے پی نے جعلی طور پر تیار کیا ہے اور یوتھ افیئرز ڈیپارٹمنٹ کااس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

کوانٹم کمپیوٹنگ کے نام پر نوجوانوں کو کیسے جھانسا دیا جا رہا ہے؟

نعیم خان (تبدیل شدہ نام) اسلام آباد کی یونیورسٹی میں شعبۂ طبیعیات کے طالب علم ہیں۔ انہوں نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ ڈاکٹر زوہیر کے ادارےسینٹر آف ایکسیلینس فار ٹیکنالوجی کوانٹم اینڈ آرٹی فیشل انٹیلی جینس پاکستان کا دعویٰ ہے کہ وہ اسی نام کی ایک کینیڈین یونیورسٹی سے الحاق شدہ ہے لہذا اسے ہائر ایجوکیشن کمیشن سے الحاق کی ضرورت نہیں ہے۔

یہ ادارہ ملکی سطح پر کوانٹم کمپیوٹنگ پر ڈپلومہ پروگرام، شارٹ کورسز اور ورکشاپس بھی منعقد کروا رہا ہے۔

نعیم خان بتاتے ہیں کہ جون 2024 میں انہوں نے اس ادارے کی جانب سے مری میں کوانٹم اور اے آئی سمر سمٹ کے لیے اپلائی کیا تھا۔ انٹرویو کے لیے گوگل میٹ پر 50 سے 60 طلبہ جمع تھے مگر کوئی انٹرویو نہیں کیا گیا بلکہ ڈاکٹر زوہیر مری میں ہونے والی ایک ویبینار کے ٹکٹ دو ہزار میں فروخت کر رہے تھے۔

نعیم کے مطابق اس سے انہیں تھوڑا شک ہوا اور انہوں نے آن لائن اور آف لائف ڈاکٹر زوہیر اور ادارے کے متعلق معلومات جمع کی تو وہ حیران رہ گئے کہ ڈاکٹر زوہیر کے اعزازات اور ادارے کے الحاق کی تمام معلومات مشکوک ہیں۔

پاکستان میں سائنسی فراڈ اتنا آسان کیوں ہے؟

شہیر نیازی نے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں ایسا پہلی دفعہ نہیں ہوا۔

یہاں کبھی کوئی پانی سے چلنے والی کار کے دعوے کرنے لگتا ہے تو کوئی کسی ادارے سے اشتراک کے بغیر پہلا کوانٹم کمپیوٹر بنا لیتا ہے۔

شہیر کہتے ہیں کہ بنیادی طور پر عوام میں سائنسی معلومات کا فقدان ہے اور انہیں بین الاقوامی یونیورسٹیوں کے سرٹیفیکیٹس کا جھانسا دے کر با آسانی دھوکا دیا جا سکتا ہے۔

وہ مزید اضافہ کرتے ہیں کہ اگر بات یہیں تک ہوتی تو قابل ہضم تھی لیکن اگر نسٹ، حبیب یونیورسٹی کراچی، قائد اعظم یونیورسٹی، اسلامک یونیورسٹی اور شہید ذوالفقار علی بھٹو یونیورسٹی اسلام آباد جیسے مایہ ناز تعلیمی ادارے کسی چھان پھٹک کے بغیر جعلی سائنسدانوں کو سیمینارز، ورک شاپس یا لیکچرز کے لیے مدعو کریں گے تو یہ یقینا لمحۂ فکریہ ہے۔

اسنا مسعود نےیونیورسٹی آف لندن سے فزکس میں گریجو یشنکی ہے۔ انہوں نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ عالمی سطح پر ایک بیسک کوانٹم کمپیوٹر کی قیمت کئی ملین ڈالر ہے۔ کیونکہ ایک کوانٹم کمپیوٹر کے کولنگ سسٹم کو منظم رکھنے کے لیے زیرو کیلون درجۂ حرارت درکار ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ کوانٹم کمپیوٹر سے سائیبر سکیورٹی کو نئے چیلنجز کا سامنا ہے کیونکہ یہ آن لائن مواصلات کو محفوظ بنانے کے لیے استعمال کئے جانے والے بہت سے انکرپشن الگورتھم کو توڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

اسنا مزید کہتی ہیں پاکستان میں فنڈز کی کمی کے باعث اس فیلڈ میں تحقیق ابھی محدود ہے۔ لہذا عوام و خواص جامعات، اور دیگر تعلیمی اداروں کو ”ڈبل چیک‘‘ رکھنا ہوگا تاکہ اس فیلڈ میں بڑھتی جعل سازی کو لگام ڈالی جا سکے۔ اسنا کے مطابق پاکستان جیسے ترقی پزیر ملک میں کوانٹم کمپیوٹر کےاستعمال کے لیے ریگولیٹری فریم ورک کی ضرورت بھی ہوگی ۔

اس حوالے سے نعیم خان کہتے ہیں کہ نوجوانوں کو کسی بھی کورس میں داخلے سے پہلے ادارے اور انسٹرکٹر کے متعلق پوری معلومات لینی چاہیے خصوصاﹰ اگر وہ آن لائن پروگراموں کے لیے بھاری فیس چارج کر رہے ہوں۔ اس کے ساتھ ہی اگر کوئی جعل سازی سامنے آتی ہے تو سوشل میڈیا کے ذریعے اسے بے نقاب کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔

Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں