دوحہ میں موجود اسرائیلی وفد ہوٹل کے بجائے طیارے میں رکنے کا کیوں سوچ رہا تھا؟
اسرائیل اور حماس کے درمیان معاہدے تک پہنچنے کے لیے دوحہ کی میزبانی میں ہونے والے مذاکرات ختم ہوچکے ہیں، جس میں امید ظاہر کی گئی ہے کہ اِسی ہفتے جنگ بندی معاہدہ ہوجائے گا، تاہم، ان مذاکرات کے دوران بیتے 48 گھنٹے کافی ڈرامائی رہے ہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے ”بی بی سی“ کے مطابق اسماعیل ہنیہ کے قتل کے بعد منعقدہ ان مذاکرات میں خاص بات وہ چند منٹ ہیں جن میں ’اسرائیلی وفد کو دوحہ کے ہوٹل میں مزید ایک رات قیام کرنے پر راضی کیا گیا، تاکہ اگلے دن مذاکرات مکمل کیے جا سکیں‘۔
اسرائیلی وفد میں موساد کے سربراہ ڈیوڈ بارنیا اور جنرل سکیورٹی سروس کے سربراہ رونن بار سمیت اسرائیلی انٹیلی جنس سروسز کے اعلیٰ ترین رہنما شامل تھے۔
بی بی سی کے مطابق اسرائیلی وفد کو خدشہ تھا کہ بیروت میں حزب اللہ کے سینئیر کمانڈر فواد شکر اور تہران میں حماس کے اہم رہنما اسماعیل ہنیہ کے قتل کے بعد اس خطے میں رہنا ان کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے۔
تاہم، ثالثوں کی جانب سے ان پر قطر میں رکنے کیلئے دباؤ تھا، جس کے بعد وفد نے ایک اور رات قیام کرنے کا فیصلہ کیا۔
لیکن انہوں نے ہوٹل میں رکنے کے بجائے اس طیارے میں رات گزارنے کا سوچا جس میں وہ قطر پہنچے تھے۔
بی بی سی کے مطابق وفد نے اسرائیل کی نجی سکیورٹی اور جہاز میں ساتھ لائے گئے خاص ہتھیاروں پر انحصار کرنے کے خیال کو آزمودہ جاننے کی کوشش کی اور اس امکان کا بھی جائزہ لیا کہ اگر وہ طیارے میں رات گزارتے ہیں تو قطری سکیورٹی اہلکار کس طرح بیرونی طور پر طیارے کی حفاظت کریں گے۔
تاہم ایسا ہوا نہیں، صہیونی اخبار ”یدیوتھ احرونوت“ کی ایک رپورٹ کے مطابق وفد نے رات کسی اور جگہ گزاری۔
اس سے قبل، اسرائیلی اور مغربی میڈیا رپورٹس کے مطابق قطری وزیر اعظم محمد بن عبدالرحمٰن الثانی نے ایرانی قیادت سے فون پر بات کی اور اسرائیل پر کسی بھی حملے کے حوالے سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی کیونکہ ان کا ماننا تھا کہ ’مذاکرات میں پیش رفت دیکھی گئی ہے۔‘
یدیوتھ احرونوت اخبار نے دعویٰ کیا کہ اس فون کال کی وجہ سے حزب اللہ اور ایران نے مذاکراتی دور کے نتائج واضح ہونے تک اسرائیل کو نشانہ بنانے کا فیصلہ ملتوی کر دیا۔
خیال کیا جاتا ہے کہ اس رات اسرائیل کسی ایک فریق کی جانب سے فوری حملے کی توقع کر رہا تھا۔