’بلائنڈ لیک‘: قدرتی حسن سے مالا مال سکردو کی پراسرار جھیل

’بلائنڈ لیک‘ یا اندھی جھیل بلتستان کے علاقے سکردو اور شگر کے سنگم پر واقع سرد صحرا کے قریب واقع ہے۔ سکردو سے قریبا پینتالیس منٹ کی مسافت پر یہ جھیل اسی راستے پر واقع ہے، جو سکردو سے دنیا کی کی دوسری بڑی چوٹی کے ٹو کی طرف جاتا ہے۔

چار کلومیٹر پر پھیلی اس خوبصورت جھیل کا شمار بلتستان کی خوبصورت ترین جھیلوں میں ہوتا ہے۔

اس جھیل کو بلتی زبان میں ‘جربہ ژھو‘ کہا جاتا ہے، جس کا مطلب ہے اندھی جھیل۔ اس جھیل کو اندھی جھیل اسی لیے کہا جاتا ہے کیونکہ یہ معلوم نہیں کہ اس جھیل کے پانی کا ماخذ کیا ہے؟

بلند و بالا پہاڑوں کے کنارے واقع اس جھیل کا پانی صاف اور نیلا ہے لیکن یہ پانی مکمل طور پر ٹھہرا ہوا ہے۔

مقامی لوگوں کے مطابق کئی برسوں سے اس جھیل میں پانی کی سطح ایک جیسی ہی ہے۔

اس جھیل میں پانی کہاں سے آتا ہے؟

گلگت بلتستان کی تاریخ و حالات پر متعدد کتابیں تحریر کرنے والے سکردو کے ممتاز صحافی قاسم نسیم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس جھیل سے پانی کے اخراج کا ایک راستہ تو ہے لیکن اس میں پانی آنے کا کوئی بھی ذریعہ معلوم نہیں ہے۔ ان کے مطابق اس جھیل کے اردگرد نہ تو پہاڑوں پر گلیشئیرز ہیں، جن سے پانی آتا ہو اور نہ ہی کوئی ایسی ندی، جھرنا یا آبشار ہے، جو اسے پانی فراہم کرتا ہو۔

اس جھیل کا پانی کھڑا رہتا ہے۔ لیکن یہ صاف اس لیے ہے کیونکہ اس میں سے پانی مسلسل باہر نکلتا رہتا ہے، ”ہمارے بڑے بوڑھے بتاتے ہیں کہ انہوں نے اپنے بزرگوں سے سنا تھا کہ اس ندی کے نیچے پانی کے چشمے ہوں گے، جن سے پانی نکلتا ہے لیکن پانی کے یہ ذرائع نظر نہیں آتے۔‘‘

بعض ماہرین کا خیال ہے کہ اس جھیل کے پاس دریائے سندھ اور شگر دریا بہتے ہیں، ان کی وجہ سے ہو سکتا ہے کہ زیر زمین پانی کی سطح بلند ہو کر اس مقام پر جھیل کی شکل اختیار کر گئی ہو۔

لیکن مقامی لوگ اس سے اتفاق نہیں کرتے۔ مقامی شہری نوشاد کے بقول زیر زمین پانی کے نکلنے کا واقعہ صرف اس جگہ پر ہی کیوں رونما ہوا ہے اور کسی جگہ کیوں نہیں۔

یہ ندی اپنے قدرتی حسن کی بدولت اندرون اور بیرون ملک سے آنے والے سیاحوں میں بہت مقبول ہے۔ سیاحت کے دلدادہ لوگ تواتر سے یہاں آتے ہیں۔ وہ جھیل کے کنارے دور دور تک پھیلے سبزے پر چہل قدمی کرتے ہیں، کشتی رانی سے لطف اندوز ہوتے ہیں، مچھلیاں پکڑتے ہیں اور ندی کنارے کیمپ لگا کر تاروں سے جگمگ کرتی پر سکون رات کا نظارہ کرتے ہیں۔

اس سب کچھ کے باوجود یہ ‘ اندھی جھیل‘ پراسرار داستانوں کے نرغے میں ہے۔

اس جھیل سے جڑی مافوق الفطرت کہانیاں

سکردو کے ممتاز صحافی اور اکادمی ادبیات کے بورڈ آف گورنرز کے رکن قاسم نسیم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس علاقے میں اس جھیل کے حوالے سے عجیب و غریب باتیں مشہور رہی ہیں۔ کچھ لوگ یہ سمجھتے رہے ہیں کہ جھیل کے سامنے والے پہاڑ کسی مافوق الفطرت مخلوق یا جنات کا مسکن ہیں اور کوئی بھی شخص اس پہاڑ کی طرف نہیں جاتا تھا۔

کشتیوں والے بھی آدھی جھیل تک ہی سفر کرتے تھے کیونکہ یہ بات مشہور تھی کہ اگر کوئی شخص آگے جائے گا تو اس کا زندہ واپس آنا ممکن نہیں۔

لاہور کے علاقے شاہ جمال سے آئی ہوئی ایک سیاح اقصیٰ شاہد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ” ہم نے سکردو اور اس کے آس پاس کے تمام علاقے دیکھے ہیں۔ ہم اندھی جھیل بھی دیکھنے گئے تھے لیکن پھر راستے سے مڑ آئے، ہمیں اس کے بارے میں کوئی اچھی اطلاعات نہیں ملی تھیں۔

ڈی ڈبلیو کے اصرار پر اقصیٰ نے بتایا کہ چند سال پہلے ان کی بہن ایک تفریحی ٹور کے ساتھ گلگت بلتستان آئی تھی۔ اس ٹور کے دوران ان کے ڈرائیور نے بتایا تھا کہ ایک مرتبہ وہ یہاں ایک ٹور لے کر آیا۔ اس ٹور کے دوران کچھ لوگوں نے یہاں تیراکی کی تھی لیکن اس کے بعد تیراکی کرنے والے ایک لڑکے کی طبیعت بہت زیادہ خراب ہو گئی تھی۔

سکردو کے ایک رہائشی شبیر خان نے بتایا کہ چند سال پہلے ایک ٹورسٹ فیملی نے اندھی جھیل کے کنارے کھڑے ہو کر دوسری طرف والے پہاڑ کی تصویر لی تھی، جس میں کسی پر اسرار مخلوق کی جھلک آ گئی تھی۔

ترقی ہوئی لیکن مزید اقدامات کی ضرورت ہے

قاسم نسیم کے مطابق اب صورتحال بدل چکی ہے، اس جھیل میں حکومت نے فش فارم بنا رکھا ہے۔ موٹر والی کشتیاں پوری جھیل میں دوڑتی پھرتی ہیں۔گلگت بلتستان میں سیاحت کے امور سے وابستہ ایک سرکاری افسر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایال، ”اندھی جھیل پر بھوتوں اور جنات کی کہانیاں سب سنی سنائی باتیں ہیں۔

یہ باتیں کرنے والوں کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہوتا۔ ہمارے ہوش میں ہمیں ایسا کوئی واقعہ دیکھنے کو نہیں ملا۔‘‘

اندھی جھیل میں کشتی رانی پر معمور عابد شگری نے بتایا کہ ان کا گاوں قریب ہی ہے، ” ہم یہاں کے رہنے والے ہیں اپنا زیادہ تر وقت اس جھیل میں کشتی رانی میں ہی گزارتے ہیں، ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ اب تو یہاں لوگ رات کو کیمپنگ کرتے ہیں، یہاں مختلف مقابلے اور میلے ہوتے ہیں۔

اگر صورت حال ایسی ہوتی تو یہ سب کیسے ممکن تھا۔‘‘

ایک سیاح بلال لطیف نے بتایا کہ اندھی جھیل کا مقام اس قدر خوبصورت ہے کہ یہاں پہاڑ، پانی، بادل، ہوا اور سبزہ سب مل جل کر ایسا منظر تخلیق کرتے ہیں کہ انسانی آنکھ حیرت سے دنگ رہ جاتی ہیں۔ ان کے بقول حکومت کو اس جھیل کے بارے میں آگاہی مہم چلانی چاہیے۔ ابھی تک تو مہم جو طبیعت کے حامل سیاح ہی یہاں پہنچتے رہے ہیں لیکن قاسم نسیم کے بقول اگر حکومت یہاں ایک اچھی کینٹین اور اچھے واش رومز تعمیر کر دے اور ساتھ ہی جھیل تک آنے کے لیے پکی سڑک بنوا دے اور صفائی کا نظام اچھا کر دے تو اس جگہ پر آنے والے سیاحوں کی تعداد میں کافی اضافہ ہو سکتا ہے۔

Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں