محققین کہتے ہیں جب امین الحسینی نے ہٹلر سے ملاقات کی تب تک یہودیوں کا قتلِ عام شروع ہوچکا تھا۔
اسرائیل کے وزیرِاعظم بنیامین نیتن یاہو کا ایک پرانا بیان ایک بار پھر وائرل ہو رہا ہے جس میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ ہٹلر نے فلسطین کے مفتی اعظم امین الحسینی کے مشورے پر یہودیوں کا قتلِ عام کیا تھا۔
نیتن یاہو کی طرف سے ہٹلر کو ہولو کاسٹ یعنی یہودیوں کے قتلِ عام کے معاملے میں کلین چٹ دینے کی کوشش کی انٹرنیٹ پر شدید مذمت کی جارہی ہے۔
تاریخ کا ریکارڈ درست کرنے کے لیے یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جب امین الحسینی نے ہٹلر سے ملاقات کی تھی تب یہودیوں کا قتلِ عام جاری تھا۔
اپنے انتہائی متنازع بیان میں بنیامین نیتن یاہو نے دعوٰی کیا تھا کہ جرمن ڈکٹیٹر ایڈولف ہٹلر یہودیوں کو قتل کرنا نہیں چاہتا تھا۔ وہ تو بس انہیں اپنے ملک کی حدود سے نکال دینا چاہتا ہے۔
نیتن یاہو نے دعوٰی کیا تھا کہ امین الحسینی نے ہٹلر سے کہا تھا کہ اِنہیں نکال دیا گیا تو یہ پھر آجائیں گے۔ اس پر ہٹلر نے پوچھا تو پھر کیا کروں۔ اس پر امین الحسینی نے مشورہ دیا کہ اِنہیں جلا ڈالو۔
2015 میں دیے گئے اس بیان کی بنیاد پر بنیامین نیتن یاہو پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ وہ ایڈولف ہٹلر کو معصوم ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بہت سے ناقدین اور محققین نے کہا تھا کہ بنیامین نیتن یاہو کا بیان سیاق و سباق سے ہٹ کر ہے کیونکہ تاریخی حقائق کچھ اور ہی کہانی سناتے ہیں۔
ہٹلر اور امین الحسینی کی ملاقات 1941 میں ہوئی تھی اور تب تک جرمن فوج یہودیوں کا قتلِ عام شروع کرچکی تھی بلکہ ہزاروں یہودیوں کو مارا جاچکا تھا۔