اس قانون کے باضابطہ نفاذ نے 29 سالہ ٹرانس جینڈر خاتون دعا فاطمہ بیگم کو بھی خوف اور تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’مجھے اب ایسا لگتا ہے کہ کوئی کبھی بھی میرا ریپ کر سکتا ہے اور میں کچھ نہ کر پاؤں گی۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ٹرانس جینڈر افراد کے جنسی استحصال کے خلاف سخت قوانین کی عدم موجودگی سے جرائم پیشہ عناصر کو کھلی چھوٹ مل جائے گی۔
دعا فاطمہ بیگم شمال مشرقی بھارت کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے تعلق رکھتی ہیں، جہاں انہیں اپنے ہی خاندان کے افراد کی جانب سے ہراساں کیا جاتا تھا۔ اس صورت حال سے فرار اختیار کرنے کے لیے وہ دو سال قبل اپنا گاؤں چھوڑ کر دہلی آ گئی تھیں۔
دعا پیشے کے اعتبار سے ایک بیوٹیشن ہیں اور کرائے کے ایک مکان میں رہتی ہیں۔ انہیں اپنے کام سے واپس گھر آنے میں اکثر دیر ہو جاتی ہے۔
تاہم اب وہ پوری کوشش کرتی ہیں کہ اندھیرا ہونے سے پہلے پہلے وہ واپس گھر پہنچ جائیں۔
نئے قانون سے مجرموں کی حوصلہ افزائی کا خدشہ
سپریم کورٹ آف انڈیا نے انڈین پینل کوڈ کی دفعہ 377 کو 2018 میں کالعدم قرار دے دیا تھا۔ لیکن اس کے باوجود جنسی تشدد سے تحفظ کے لیے یہ شق قوانین میں برقرار رہی، جس کے تحت ٹرانس جینڈر افراد اور مرد متاثرین کو بھی قانونی تحفظ فراہم کیا جاتا تھا۔
بھارت نے 2014 میں ”تیسری صنف‘‘ کو قانونی طور پر تسلیم کیا، اور 2019 میں ٹرانس جینڈر پرسنز (تحفظ حقوق) ایکٹ بھی منظور کر لیا گیا تھا۔
اس قانون کے تحت ٹرانس جینڈر افراد سے کسی بھی قسم کی بدسلوکی کی سزا زیادہ سے زیادہ دو سال تک کی قید ہو سکتی ہے۔ تاہم خواتین کے خلاف اسی نوعیت کے جرائم کی صورت میں ایسی سزا کا دورانیہ زیادہ ہوتا ہے۔
تاہم دفعہ 377 کے تحت ٹرانس جینڈر افراد کے ریپ جیسے سنگین جرم کے مرتکب افراد کو 10 سال تک کی قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔
لیکن بھارت کے نئے قانون کے تحت ٹرانس جینڈر افراد کے خلاف جنسی تشدد کو اس کی شدت میں بالواسطہ طور پر کم نوعیت کا جرم قرار دیا گیا ہے اور اسی لیے ایسی صورت میں مجرمان کو سزائیں بھی بہت سخت نہیں سنائی جا سکیں گی۔
دہلی سے تعلق رکھنے والی 47 سالہ ناز جوشی کا کہنا ہے کہ اب چونکہ ٹرانس جینڈر افراد کے خلاف جنسی تشدد کی روک تھام کے لیے کوئی قانون موجود نہیں، تو جرائم پیشہ افراد انہیں کبھی بھی نشانہ بنا سکتے ہیں۔
پولیس پہلے ہی ٹرانس جینڈر افراد کے مسائل کو سنجیدگی سے نہیں لیتی بلکہ پولیس اہلکار ان کا مذاق اڑاتے ہیں یا ان کی شکایات درج کرنے سے ہی انکار کر دیتے ہیں۔
یپ کی تعریف میں ٹرانس جینڈر افراد کی شمولیت کی مہم
بھارت میں جرائم کا ریکارڈ رکھنے والے حکومتی ادارے این آر سی بی کے مطابق 2020 میں مختلف جرائم کا شکار ہونے والے تمام افراد میں سے 236 ٹرانس جینڈر باشندے تھے، جو کہ متاثرین کی کُل تعداد کا 0.006 فیصد ہے۔ تاہم این آر سی بی کے ڈیٹا کے مطابق اُس سال ٹرانس جینڈر افراد کے ریپ کا تو کوئی واقعہ رپورٹ ہی نہیں ہوا تھا۔
ہم جنس پسندوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے ”یس وی ایگزسٹ‘‘ کے شریک بانی جیت کا کہنا ہے کہ اگرچہ ٹرانس جینڈر افراد کے لیے اپنی شکایات درج کرانا مشکل ہوتا تھا، تاہم دفعہ 377 نے انہیں قانوناً تحفظ فراہم کر رکھا تھا۔ اب نئے قانون کے مطابق، ایسے الزامات جو جرم کی مکمل شدت کو ظاہر کرتے تھے، الزامات کی فہرست میں شامل ہی نہیں ہیں۔
ایک آن لائن پٹیشن میں وزارت داخلہ سے ٹرانس جینڈر افراد کو قانونی تحفظ کی فراہمی اور جنسی تشدد کے خلاف مؤثر قانون سازی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس پٹیشن پر تاحال 47 ہزار باشندے دستخط کر چکے ہیں۔
گزشتہ ماہ دہلی ہائی کورٹ نے حکومت کو ہدایت کی تھی کہ وہ ترجیحی بنیادوں پر چھ ماہ کے اندر اندر ٹرانس جینڈر متاثرین کو دوبارہ مؤثر قانونی تحفظ فراہم کرے۔
بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے کہا ہے کہ ملکی نظام انصاف میں حالیہ تبدیلیاں اس نظام کو منصفانہ معیار سے ہم آہنگ بنائیں گی۔ ان کا کہنا ہے کہ بھارت کے آزادی حاصل کرنے کے 77 سال بعد اب بھارتی نظام انصاف مکمل طور پر ملکی اقدار کے مطابق ہے اور مجرموں کو صرف سزائیں سنانے کے بجائے متاثرین کو مکمل انصاف بھی فراہم کر سکتا ہے۔