مہنگائی میں اضافے کے باعث 16 اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ہوگیا

حالیہ ہفتے میں تازہ دودھ ، چکن، چاول، گوشت، گھی آلو، گڑ سمیت سولہ اشیاء مہنگی ہوگئیں، 9 اشیاء کی قیمتوں میں کمی دیکھی گئی۔ ادارہ شماریات کی ہفتہ وار رپورٹ

وفاقی بجٹ میں ٹیکسز بڑھنے آئی ایم ایف کی شرائط پر بجلی کی قیمتوں کے اضافے سے جہاں عوام پر مہنگائی کے شدید اثرات پڑے ہیں، وہاں حکومت کی عوام دوست حکمت عملی کی وجہ سے مہنگائی کی شرح بڑھ کر12.08 فیصد تک پہنچ گئی، جس کے باعث ہفتہ وار بنیادوں پر16 اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق وفاقی ادارہ شماریات نے ہفتہ وار مہنگائی کے اعدادوشمار جاری کردیئے، جس کے تحت ہفتہ وار بنیادوں پر مہنگائی کی شرح میں 0.05 فیصد اضافہ ہوگیا ہے۔

رواں ہفتے 9 اشیاء کی قیمتوں میں کمی جبکہ 26 اشیا کی قیمتیں مستحکم رہیں۔ حالیہ ہفتے میں ٹماٹر کی فی کلو قیمت میں اوسطاً 7 روپے، پیاز اوسطاً 8 روپے، دال چنا فی کلو 4 روپے تک مہنگی ہوگئی ہے۔

تازہ دودھ ، چکن، چاول، گوشت، گھی آلو، گڑ، جلانے کی لکڑی، لہسن بھی مہنگی ہونے والی اشیاء میں شامل ہے۔ اسی طرح دال مونگ کی فی کلو قیمت میں 5 روپے، دال ماش فی کلو 10 روپے، چینی کی فی کلو قیمت میں 2 روپے کمی ہوئی جبکہ چائے پتی بریڈ سمیت 26 اشیاء کی قیمتیں مستحکم ریکارڈ کی گئیں۔

دوسری جانب وفاقی وزارت خزانہ کی ماہانہ اقتصادی اپڈیٹ میں کہا گیا ہےکہ ستمبر اور اکتوبر میں مہنگائی کی شرح 8 سے 9 فیصد تک رہنے کا امکان ہے، مہنگائی سنگل ڈیجٹ میں آچکی ہے، صنعتی پیداوار بھی بڑھ رہی ہے، ستمبر میں برآمدات3 ارب ڈالرز تک رہنے کی توقع ہے۔ میڈیا کے مطابق وزارت خزانہ کی ماہانہ اقتصادی اپڈیٹ میں کہا گیا کہ بڑی صنعتوں کی پیداوار میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے، اہم برآمدی شعبے پیداوار میں اضافہ کیلئے تیار ہیں جس کی بنیادی وجہ مستحکم ایکسچینج ریٹ، افراط زر کے دبائو میں کمی اور کاروبار دوست ماحول کی فراہمی ہے، زری پالیسی میں نرمی کی وجہ سے سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہو رہا ہے، عالمی معیشت کے استحکام سے پائیدار صنعتی ترقی کا عمل مزید بہتر ہو گا۔

وزارت خزانہ نے کہا کہ خریف 2024ء کی فصلوں کا انحصار موسمیاتی عوامل پر ہے۔ وزارت خزانہ کے مطابق ستمبر اور اکتوبر میں مہنگائی کی شرح 8 سے 9 فیصد کے درمیان رہنے کا امکان ہے، ستمبر میں ملکی برآمدات 2.5 ارب ڈالر سے لے کر 3 ارب ڈالر اور درآمدات 4.5 ارب ڈالر سے لے کر 5 ارب ڈالر تک رہنے کا امکان ہے، اسی طرح ترسیلات زر کا حجم 2.7 ارب ڈالر سے لے کر 3.2 ارب ڈالر کے درمیان رہے گا۔ 

Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں