تنخواہ دار طبقے پر سب سے زیادہ ٹیکسوں کا بوجھ ڈالا گیا، حکومت متوسط طبقے کیلئے ریلیف کے اقدامات کرے۔ صحافیوں کا مطالبہ
وفاقی وزیر خزانہ کی پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس کے دوران مڈل کلاس پر اضافی ٹیکسوں کے خلاف صحافیوں نے احتجاج ریکارڈ کروا دیا۔ تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس کے لیے پہنچے تو بجٹ میں مڈل کلاس طبقے کیلئے اضافی ٹیکسوں کے بوجھ پر صحافیوں کی جانب سے احتجاج کیا گیا، پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس میں شریک تمام صحافیوں نے علامتی احتجاج ریکارڈ کرایا، صحافیوں کی جانب سے وزیر خزانہ کی پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس کے دوران نشستوں پر کھڑے ہو کر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا گیا، صحافیوں سے وزیر خزانہ سے کہا کہ تنخواہ دار طبقے پر سب سے زیادہ ٹیکسوں کا بوجھ ڈالا گیا، حکومت متوسط طبقے کیلئے ریلیف کے اقدامات کرے۔
خیال رہے کہ وفاقی حکومت نے 8 ہزار 500 ارب روپے خسارے کا مالی سال 2024-25 کا بجٹ پیش کیا ہے ، جس میں حکومت کی یقین دہانیوں کے باوجود ٹیکسوں کا بڑا بوجھ تنخواہ دار طبقے پر ڈالا گیا ہے جس سے حکومت تنخواہ ہر انکم ٹیکس وصول کرنے کے علاوہ یوٹیلٹی بلوں کے ذریعے بھی انکم ٹیکس وصول کرتی ہے نان ٹیکس محصولات کو ملا کر وفاقی حکومت کی آمدن 9119 ارب روپے ہوگی اس لیے خسارہ پورا کرنے کیلئے قرضوں، نجکاری اور بیرون ملک سے ملنے والی امداد پر انحصار کیا جائے گا۔
پاکستان کویت انویسٹمنٹ کمپنی کے ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ کے سربراہ سمیع اللہ طارق نے کہا کہ ایسا لگتا تھا حکومت آمدنی بڑھانے کے لیے انقلابی اقدامات کرئے گی اور تنخواہ داروں اور عام شہریوں کو ٹیکسوں میں ریلیف ملے گا مگر50ہزار1سو روپے تنخواہ پر اڑھائی ہزار روپے ٹیکس ظالمانہ اقدام ہے ، افراط زراور روپے کی قدرمیں کمی کی وجہ سے دوسالوں میں روپے کی قدر میں پہلے ہی 2022 میں 176 روپے کے مقابلے میں280روپے تک جاچکا ہے یعنی ڈالر کی قدر میں دوسالوں کے دوران176روپے کا اضافہ ہوا جبکہ پچھلے دوسالوں میں بجلی ‘گیس ‘اشیاءضروریہ کی قیمتوں میں کئی سو فیصد اضافہ ہوا پچاس ہزار روپے سال2022میں 284امریکی ڈالر کے برابر تھے جبکہ جون 2024 پچاس ہزار روپے کی قدر 178امریکی ڈالر کے برابر رہ گئی ہے ایسے میں ایک لاکھ سے نیچے تنخواہ کو ناقابل ٹیکس قراردیا جانا چاہیے۔
ماہر معاشیات پروفیسرڈاکٹر منور نے کہا کہ عام شہری پہلے ہی انٹرڈائریکٹ ٹیکسیشن کی مد میں ہر چیزپر ایک ہی ٹیکس کئی کئی بار ادا کرتا ہے، فی کس آمدنی، کرنسی کی قدر اور شرح نمو کے اعتبار سے ہم پہلے ہی دنیا کے بدترین ممالک میں شمار ہوتے ہیں 2022 میں ہمارا جی ڈی پی 4 اعشاریہ 7 فیصد تھا جو 2024میں گر کر 2اعشاریہ8فیصد پر آگیا ہے تو اتنے بڑے فرق اور ”ڈی فلیشن“کی وجہ سے گروتھ کا رک جانا ظاہر کرتا ہے کہ ہماری معاشی حالت کیا ہے، آپ انفلیشن پر قابو پالیتے ہیں تو گروتھ کو بڑھنا چاہیے لیکن اگر آپ کی گروتھ جمود کا شکار ہے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کی معیشت”ڈی فلیشن“کا شکار ہے جس کی وجہ شہریوں میں قوت خرید کی کمی کی وجہ سے ڈیمانڈ کا ختم ہوجانا ہے ایسے میں آپ مہنگائی میں کمی کے جتنے مرضی ڈھول پیٹتے رہیں اس سے حقائق تبدیل نہیں ہونگے‘بجلی‘گیس‘پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے سے شہری اپنے ماہانہ راشن کے بلو ں میں کٹوتیوں پر مجبور ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کسی بھی معاشرے میں وائٹ کالر نوکری اور چھوٹے کاروباری مڈل کلاس قائم کرتے ہیں جو ملکی معیشت کے لیے بفرزون کا کام کرتی ہے مگر ہم نے مڈل کلاس کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے اب ملک میں صرف دوطبقات ہی بچے ہیں امیر اور غریب‘مڈل کا تصور پاکستان میں ختم ہوچکا ہے ، بجٹ دستاویزات اگر معاشیات کا ایک پروفیسرٹھیک طرح سے پڑھنے سے قاصر ہے تو ایک عام شہری کو اس کی سمجھ کیسے آئے گی؟ .